مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اثر انگیز اور انقلاب انگیز تحریروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔ رسالہ ’ترجمان القرآن‘ کے ذریعے ابتدا ہی سے قارئین کے دلوں پر مولانا کی تحریروں نے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ انمٹ ہیں۔ طرزِ تحریر ایسا تھا کہ جو بھی پڑھ لیتا تھا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ ’’مولانا مودودی نے اردو ادب کو شائستگی عطا کی ہے‘‘۔ یہ شائستگی مولانا کی تحریر کے ہر جملے اور ہر عبارت میں نظر آتی ہے۔ مولانا ماہر القادری فرماتے ہیں کہ ’’نگارش پر تری حسن ادب نے ناز فرمایا‘‘۔ مولانا نعیم صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’مولانا مودودی ایک بڑے ادیب کی حیثیت سے زبان اور بیان اور اسالیب کا ایک نیا اسٹائل لے کر آئے تھے اور اپنے اسی ہتھیار سے انھوںنے اسلام کے لئے جہاد کیا‘‘۔ مولانا کے ترجمان القرآن پر نظر ڈالیں تو بہت سی گتھیاں سلجھتی جائیں گی۔ مولانا کی تحریروں میں یوں تو بہت سی خوبیاں شروع ہی سے پائی جاتی ہیں لیکن جو چیز دلوں کو زیادہ اپیل اور متاثر کرتی ہے وہ ان کا گہرا تیقن ہے جو اردو ادب میں بالکل نایاب ہے۔
ایک دفعہ ظفر جمال صاحب نے مولانا سے پوچھا کہ اسی مشن کو مولانا ابوالکلام آزاد بھی لے کر چلے تھے لیکن وہ جلد مایوس ہوکر بیٹھ گئے، جبکہ آپ ابھی تک اور بڑے عزم و یقین کے ساتھ چل رہے ہیں؟ اس پر مولانا نے جواباً فرمایا تھا کہ ’’دراصل مجھ میں اور مولانا آزاد صاحب میں بنیادی فرق معالج اور تیمار دار والا ہے، معالج مریض سے مایوس ہوجاتا ہے لیکن تیمار دار مایوس نہیں ہوتا…‘‘۔
ترجمان القرآن میں ایک کالم ’رسائل و مسائل‘ کا رہا کرتا تھا جو اب تک جاری ہے۔ بڑے ذوق و شوق سے یہ کالم پڑھا جاتا تھا اور آج بھی پڑھا جاتا ہے۔
مولانا کی تحریر میں یوں تو اور بھی خوبیاں ہیں، لیکن جس خوبی نے سب سے زیادہ اپیل کی وہ ہے ان کا گہرا تیقن، ایک مرتبہ شورش کاشمیری مرحوم نے ان کو لکھا کہ قوم کی ذہنی اور مجموعی صورت حال اس قدر مایوس کن ہے کہ اس کو سدھارنے اور مثبت نتائج نکالنے کی کوششیں عبث ہیں، لیکن اس کے جواب میں مولانا نے مایوس ہونے کے بجائے لکھا کہ ’’آپ جیسے پختہ عزم اور قومی زندگی کا طویل تجربہ رکھنے والے آدمی کو اس کا اتنا گہرا اثر قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ خدا کے فضل سے نئی پود کا ایک خاصا بڑا عنصر ایسا موجود ہے جس کے ذریعے خراب عنصر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ مصائب حق پر نہیں بلکہ اہل حق پر آتے ہیں لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کا کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انھیں بہر حال حق پر ہی نہیں بلکہ اہل حق پر آتے ہیں لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انھیں بہر حال حق ہی پر قائم رہنا ہے اور اسی کا بول بالا کرنے کیلئے اپنا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے، وہ مصائب میں مبتلا تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔ مولانا جیسے لہجے میں ایمانیات، تیقن اور Committment کی یہ مضبوط بنیاد بڑی کمیاب چیز ہے، اور یہ چیزیں خصوصاً مولانا مودودی کے خطوط میں جا بجا ملتی ہیں۔
ایک بہت بڑے دانشور اور اسلامی اسکالر جناب سراج منیر مولانا کے تیقن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ مولانا جیسی ہمہ پہلو شخصیت تاریخ میں بہت کم سامنے آئی ہے۔ مولانا مودودیؒ اس اعتبار سے تاریخ کا ایک انسانی عجوبہ تھے کہ ان سے لاکھوں سوال پوچھے گئے اور انھوں نے ان سوالات کے شافی جوابات دیئے، ابھی بات ادب کی ہورہی تھی کہ فوراً سائنس کی جانب مڑگئی، دوسرے لمحے تاریخ پر کلام ہورہا تھا کہ درمیان میں تفسیر پر اعتراض شروع ہوگیا۔ اور مولانا ہیں کہ ہر سائل کے سوال کا شافی جواب دے رہے ہیں، جزئیات تک واضح کر رہے ہیں۔
میرے ذہن میں کوئی اور شخصیت ایسی نہیں ابھر رہی ہے۔ سوال و جواب تو اور شخصیات سے ہوئے ہیں مگر Diversity کے اعتبار سے کوئی فرد مولانا کے مقابل نظر نہیں آتا۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مولانا کا علم بنیادی طور پر کتابی نہیں ہے کہ انھوں نے کچھ جوابات یاد کر رکھے ہوں بلکہ انھوں نے بنیادی اصول طے کر رکھا ہے اس لئے جب بھی ان سے کسی Dimension سے سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ اصول کا اطلاق کرکے اس کا جواب دے دیتے ہیں اور یوں مولانا مودودی کا Zone of Inflence بہت وسیع تر ہوگیا … سچی بات یہ ہے کہ مجھے مولانا کے بہت سے جوابات میں آپ کہہ لیجئے ، الہامی Dimension نظر آتی ہے کیونکہ انسانی ذہن کے ذریعے سے وہ چیز آنہیں سکتی جو مولانا کی جانب سے آتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے قلب و ذہن پر روشنی کا نزول ہوا ہے‘‘۔
آخر میں یہ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’ترجمان القرآن‘ جیسے عظیم رسالے کے مدیر حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ابتدا میں سات آٹھ سال تک کس قدر ناقابل بیان دشواریوں سے گزرنا پڑا۔ رسالے کے لئے بازار سے کاغذ لانا، اسے چھپوانا ، لوگوں کے پاس بھیجنا یہ سب کام تنہا انجام دیتے تھے۔ مالی دشواریاں بھی کم نہیں تھیں، پھر بھی عزم و استقلال کی بات کرتے رہے۔ مقاصد کا ذکر بھی کرتے رہے۔ کبھی تفصیل سے تو کبھی اختصار سے۔ جن مسائل سے دوچار تھے اسے بھی بیان کرکے قارئین کو مطلع کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
کہانی مولانا کی زبانی سنئے: ’’ایک طرف یہ ضعف و توانائی ہے اور دوسری طرف پیش نظر یہ کام ہے کہ اسلام کو اس اصلی روشنی میں پیش کیا جائے جس میں قرآن حکیم نے اس کو پیش کیا ہے۔ اور قرآن حکیم کی تعلیمات اور اس کے حقائق و مصارف کو اس طریق سے بیان کیا جائے جس طریقے سے سلف صالح نے ان کو بیان کیا ہے۔ کہنے کو یہ کام بہت آسان ہے… مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکوٰۃ نبوت سے بُعد، علم صحیح کی کمی، سلامتِ قلب و استعداد نظر کے فقدان، یونانی تفسلف، عجمی موشگافی، مغربی تشکیک اور سب سے بڑھ کر خود پرستی، عقلیت کے گھمنڈ اور ہوائے نفس کے اتباع نے ہمارے اور معارف قرآنی کے درمیان ایسے پردے ڈال دیئے ہیں کہ جو قرآن آسان کیا گیا تھا وہ اب سب سے زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ جو نہ صرف روشن، بلکہ روشن کر، نہ صرف نور، بلکہ منیر تھا وہ اب خود اپنی شکل میں نظر نہیں آتا… ان حالات میں قرآن مجید کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے، اور اس مشکل کام کے لئے اس رسوخِ علم، سلامت قلب اور طہارتِ نفس و روح کی ضرورت ہے جس کی قلت میں اپنے اندر محسوس کرتا ہوں۔
پس سلامتی کی راہ تو در حقیقت اس میں تھی کہ جو شخص رسوخ علم اور طہارت قلب کا مالک نہیں، وہ ترجمان القرآن کی تحریر و ترتیب کا کام اپنے ہاتھ میں نہ لیتا، مگر کام کی دشواری اور اپنی کمزوری کو جاننے کے باوجود محض خدمت کے جذبے نے مجھ کو اس دعوت کے قبول کرنے پر مجبور کردیا ہے، جو مجھے اس کام کی جانب دی گئی تھی۔ اور اس بھروسے نے میری ہمت بڑھائی کہ جس خدا نے میرے دل میں یہ جذبہ پیدا کیا ہے وہی رسوخِ علم، صحتِ فکر، سلامتِ قلب اور طہارتِنفس و روح بھی ارزانی فرمائے گا۔
داعی ایک سال تک دن رات ایک کرکے لوگوں کو قرآن کی طرف بلاتا ہے خود قرآن کے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے اور بیدار کرتا ہے۔ سال بھر کی محنت کے بعد پھر ماحول کا جائزہ لیتا ہے اور کہتا ہے:
اس طرح ایک سال گزر گیا: ترجمان القرآن کو میری تحریر و ادارت میں شائع ہوتے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے، اور اب اس پرچے کے ساتھ اسکادوسرا سال شروع ہورہا ہے۔ اس مدت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور اپنی کتاب کی خدمت کے لئے جو توفیق مجھ کو عطا فرمائی، اور سخت ہمت شکن حالات میں خدمت کے لئے کمربستہ رہنے کی جو استقامت بخشی، اس کے لئے شکر بجا لانا میرا فرض ہے، اگر چہ میرا شکر اس کے فضل و انعام کے مقابلے میں بہت حقیر ہے۔ میں نے جن حالات میں اس رسالے کی ادارت سنبھالی تھی اور بعد میں مسلسل کئی مہینے تک جو مشکلات مجھے پیش آتی رہیں، ان سے یقینا میرے حوصلے پست ہوجاتے اگر میرا اعتماد خدا کے بجائے دنیوی اسباب اور خود اپنی قوت پر ہوتا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرا بھروسہ دنیا اور اسباب دنیا پر نہیں بلکہ ہمیشہ خدا پر رہا ہے اور خدا کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو اس پر بھروسہ کرکے اس کی راہ میں صبر و استقامت کے ساتھ سعی کرے گا، اس کو آخرکار کامیابی نصیب ہوگی اور خوف و حزن اس کے پاس پھٹک نہ سکے گا۔
یہ زمانہ ہندوستان میں اسلام کے لئے بڑا ہی نازک زمانہ ہے۔ کوئی حکومت موجود نہیں ہے جو زندقہ و الحاد کی اشاعت روکتی۔ مذہب قانون کی طاقت سے محروم ہوچکا ہے… روشن خیالی کے مدعی اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اسلامی سوسائٹی میں رہ کر اسلام کے اصولی مسائل میں جس طرح چاہیں قطع و برید کریں، ایمانیات پر ضرب لگائیں، اعمال پر حملے کریں، قوانین اسلامی میں ترمیم و تنسیخ کریں، اور اگر کوئی اس پر ٹوکے تو ان کے نزدیک وہ تنگ نظر، تنگ خیال، کٹھ ملا ہے، کیونکہ وہ حریت ضمیر اور آزادیِ تحریر و تقریر کا حق ان سے سلب کرنا چاہتا ہے‘‘۔ عبدالعزیز
’ترجمان القرآن‘ اردو کا سب سے کامیاب رسالہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS