پہلی بار دریافت ہونے والا پراسرار دیوہیکل غار‘ جو چاند پر ’انسانوں کا گھر‘ بن سکتا ہے

0

جورجینا رینارڈ
سائنسدانوں نے پہلی بار چاند پر ایک غار دریافت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی گہرائی کم از کم 100 میٹر ہے اور یہ چاند پر انسانوں کی رہائش کے لیے ایک مثالی جگہ ہو سکتی ہے۔محققین کا ماننا ہے کہ یہ غار چاند کی ’زیر زمین غیر دریافت شدہ دنیا‘ میں چھپی ہوئی سینکڑوں غاروں میں سے صرف ایک غار ہے۔یاد رہے کہ یہ دریافت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا کے کئی ممالک چاند پر مستقل انسانی بستی آباد کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے لیے پہلے انھیں تابکاری، انتہائی درجہ حرارت اور خلائی موسم سے بچانے کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔
پہلی برطانوی خلاباز ہیلن شرمن نے بتایا کہ ’نئی دریافت ہونے والی غار انسانوں کے بسنے کے لیے بظاہر اچھی جگہ لگ رہی ہے۔‘انھوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ اگلے20 سے 30 سال میں انسان چاند پر مستقل طور پر رہنے کے قابل ہو جائے گا۔لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ غار اتنا گہرا ہے کہ خلابازوں کو باہر نکلنے کے لیے ’جیٹ پیک یا لفٹ‘ کے استعمال کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف ٹرینٹو میں لورینزو بروزون اور لیونارڈو کیرر نے غار کو میئر ٹرینکولیٹیٹس نامی چٹانی میدان میں ریڈار کا استعمال کرتے ہوئے تلاش کیا۔یہ غار اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے ریڈار کی مدد سے ایک سوراخ میں گھسنے کی کوشش کی۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ غار کسی زمانے میں ایک سمندر ہوا کرتا تھا جسے چاند پر ایک گڑھے کی شکل میں زمین سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔غار میں چاند کی سطح پر ایک ’سکائی لائٹ‘ یا روشندان بھی ہے جو اس غار کی سطح تک لے جاتا ہے۔ تاہم اس کی سطح کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی گہرائی اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ غار اربوں سال قبل شاید اس وقت بنا تھا جب چاند پر لاوا بہتا تھا اور اسی وجہ سے چاند میں ایک سرنگ بن گئی۔پروفیسر کیریر وضاحت کرتے ہیں کہ اگر زمین پر اس کی مثال دی جائے تو سپین میں موجود لاوا سے بننے والے غار دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس تحقیق کے دوران محققین نے سپین میں ان غاروں کا بھی معائنہ کیا۔
پروفیسر کیرر نے کہا کہ ’یہ واقعی دلچسپ ہے۔ جب آپ ایسی کوئی دریافت کرتے ہیں اور آپ ان تصاویر کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ انسانیت کی تاریخ میں اسے دیکھنے والے پہلے افراد میں سے ہیں۔‘
ایک بار جب پروفیسر بروزون اور پروفیسر کیرر نے یہ سمجھ لیا کہ غار کتنا گہرا ہے تو انھیں یہ احساس ہوا کہ یہ چاند پر انسانی ٹھکانہ بنانے کے لیے ایک اچھی جگہ ہو سکتی ہے۔پروفیسر کیرر کا کہنا ہے کہ ’زمین پر بھی تو زندگی کا آغاز غاروں سے ہوا تھا، اس لیے یہ بہت حد تک قابل فہم ہے کہ انسان چاند پر بھی ان کے اندر رہ سکتے ہیں۔‘اس غار کی دریافت ابھی تک مکمل نہیں کی گئی ہے کہ اس میں کیا ہے۔ لیکن محققین کو امید ہے کہ ریڈار، کیمرے یا روبوٹ کی مدد سے اس کا تفصیلی نقشہ بنایا جا سکتا ہے۔سائنسدانوں نے تقریباً 50 سال قبل پہلی بار محسوس کیا تھا کہ شاید چاند پر غار موجود ہوں۔ پھر سنہ 2010 میں ’لونر ریکوناسینس اوربیٹر‘ نامی مشن کے دوران ایک کیمرے نے چند گڑھوں کی تصویریں لیں جن کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ غار کے داخلی راستے ہو سکتے ہیں۔لیکن محققین یہ نہیں جانتے تھے کہ غار کتنے گہرے ہو سکتے ہیں۔پروفیسر بروزون اور پروفیسر کیرر کے کام نے اب اس سوال کا جواب دے دیا ہے لیکن غار کو مکمل طور پر سمجھنے اور جاننے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی کی ’ٹاپیکل ٹیم پلینٹری کیوز‘ کے کوآرڈینیٹر فرانسسکو سورو نے بتایا کہ ’ہمارے پاس (چاند کی) سطح کی بہت اچھی تصاویر ہیں جن کا ریزولوشن 25 سینٹی میٹر تک ہے۔ ہم اپالو کی لینڈنگ کی جگہ کو دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم سطح کے نیچے کیا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔ وہاں دریافت کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے ہمیں مستقبل میں مریخ پر غاروں کی تلاش میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ان کے مطابق اس دریافت سے مریخ پر زندگی کے شواہد تلاش کرنے کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔ ’اگر یہ مریخ پر موجود ہیں تو یہ تقریباً یقینی طور پر سیارے کی سطح پر موجود عناصر سے محفوظ غاروں کے اندر ہوگا۔‘
چاند کے غار انسانوں کے لیے مفید ہو سکتے ہیں لیکن سائنسدان اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ اس سے چاند کی تاریخ اور یہاں تک کہ ہمارے نظام شمسی کے بارے میں بنیادی سوالات کے جوابات دینے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
غار کے اندر کی چٹانیں خلائی موسم کی وجہ سے تباہ یا ختم نہیں ہوئی ہوں گی، اس لیے وہ چاند کا اربوں سال پرانا وسیع ارضیاتی ریکارڈ فراہم کر سکتے ہیں۔یہ تحقیق سائنسی جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہوئی ہے۔ll

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS