کشمیر کو پھر جنت بنانے کا ہو ’ٹارگیٹ‘

0

کشمیر میں کیا وقت آگے بڑھنے کے بجائے واپس پیچھے لوٹ رہا ہے؟ وادی میں ٹارگیٹ کلنگ کے مسلسل بڑھتے واقعات کے بعد وہاں کی اقلیت ہندو اور سکھ طبقہ کی بڑے پیمانہ پر شروع ہوئی نقل مکانی کے تعلق سے یہ سوال اٹھا ہے ۔ حالاں کہ حکومت نہ تو نقل مکانی کی تصدیق کررہی ہے، نہ اس کی تردید لیکن نقل مکانی کا رجحان اب کشمیر کی ایسی سچائی بنتی جارہی ہے جسے جھٹلانا آسان نہیں رہ گیا ہے۔ دعویٰ تو یہاں تک ہے کہ اقلیتوں کے کئی رہائشی علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کے گھروں پر ایک بار پھر سال1990کی طرح غیرمعینہ مدت تک کے لیے تالے لٹک گئے ہیں۔
حالاں کہ ٹارگیٹ کلنگ کے اس تازہ دور کا موازنہ 90کی دہائی سے کرنا جلدبازی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی سیاہ دور اچانک نہیں آیا تھا۔ تب بھی دہشت گردوں نے کچھ اسی طرح چن چن کر کشمیری ہندوؤں کو قتل کیا تھا۔ پھر اچانک تیزی سے حالات بگڑے اور 19جنوری، 1990کی وہ منحوس رات بھی آئی جب مقامی مساجد کے لاؤڈاسپیکروں سے کشمیری پنڈتوں کو ’وادی چھوڑو یا پھر مرو‘ والا فرمان سنایا گیا جس کے بعد ہزاروں کشمیری پنڈتوں کو جان بچانے کے لیے اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اجتماعی نقل مکانی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ آج کے حالات بیشک اتنے خوفناک نہ ہوں، لیکن ڈراؤنے ماضی کی یادوں کو ہوا دینے کے لیے کافی ہیں۔
زندگی کی غیریقینی سے خوفزدہ نقل مکانی کررہے اقلیتوں میں بڑی تعداد ملازمت پیشہ ان کشمیری پنڈتوں کی ہے جو مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ان کا محفوظ مقام پر تبادلہ نہیں کیا گیا تو وہ اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیں گے۔ یہ ملازمتیں وادی میں ان کی آبادکاری میں اضافہ کے لیے شروع کیے گئے پی ایم خصوصی پیکیج کے تحت دی گئی ہیں۔ حکومت فی الحال اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہی ہے۔ جمعہ کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی موجودگی میں ہوئی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں طے ہوا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی مبینہ نقل مکانی کو ہر قیمت پر روکا جائے گا اور انہیں وادی میں ہی مناسب سیکورٹی مہیا کروائی جائے گی۔ ساتھ ہی دہشت گردی پر سخت مرکزی وزیرداخلہ نے اشارے دیے ہیں کہ حکومت ٹارگیٹ کلنگ کررہے دہشت گردگروپوں اور اوور گراؤنڈ ورکرس کے خلاف سخت قدم اٹھائے گی۔
ایسے میں ایک اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت جو کہہ رہی ہے، اسے زمین پر اُتارنا کتنا آسان یا مشکل رہنے والا ہے؟ آخر حکومت ایسا کیا کرنے جارہی ہے جو اس نے ابھی تک نہیں کیا؟ اور اگر حکومت کے پاس ایسا کوئی پلان ہے تو اسے ابھی تک عمل میں کیوں نہیں لایا گیا؟ ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں بھلے ہی ابھی تیزی آئی ہو، لیکن یہ کوئی کل کا واقعہ بھی نہیں ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور غیرکشمیریوں کو چن چن کرمارنے کے واقعات تو سال 2021کی شروعات سے ہی شروع ہوگئے تھے جب سری نگر میں کرشنا دھابہ کے مالک آکاش مہرا کو ان کے ریستوراں میں ہی گولی مار دی گئی۔ آگے چل کر اس ’خونیں لسٹ‘ میں مشہور دوا کاروباری ماکھن لال بندرو، اسکول کی پرنسپل سوپندر کور، ٹیچر دیپک بھی شامل ہوئے، جنہیں محض ہندو نام ہونے کے سبب موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ گزشتہ سال دہشت گردوں نے وادی میں کم سے کم 35عام شہریوں کا قتل کیا۔ یہ سلسلہ اس سال بھی جاری ہے اور اب تک17ٹارگیٹ کلنگ ہوچکی ہیں۔ اکیلے مئی کے ماہ میں ہی مسلم خاتون ٹی وی اداکارہ عمرین بھٹ، راہل بھٹ، رجنی بالا اور وجے کمار سمیت 9لوگ دہشت گردوں کے نشانہ پر آکر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ وادی میں ایک بار حالات ایسے وقت میں بدتر ہوئے ہیں، جب مرکز نے ملک کے ساتھ کشمیر کے تعلقات کو بدلنے کی ایک نئی شروعات کی ہے۔ سال 2019میں جموں و کشمیر کی ریاست اور خصوصی آئینی درجہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی وادی میں کچھ وقت کے امن کے بعد دہشت گردانہ تشدد کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ ظاہری طور پر ٹیررفنڈنگ کے خلاف ایجنسیوں کی کارروائی سے دہشت گردوں اور پاکستان میں بیٹھے ان کے آقاؤں میں بوکھلاہٹ ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے لیے چلائی گئی حکومت کی گھرواپسی مہم نے ان کی اس بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ کشمیری پنڈتوں کو وادی میں دوبارہ آباد کرنے کے لیے حکومت نے وزیراعظم پیکیج کے ذریعہ انہیں ملازمتیں دینے کی مہم شروع کی۔ اس کا مقصد ان کی بازآبادکاری کے ساتھ ہی وادیٔ کشمیر کو ایک بار پھر ملک کی مین اسٹریم میں واپسی کو یقینی بنانا تھا۔ پی ایم پیکیج جابس کے تحت بڑی تعداد میں خواتین اور مردوں نے گھرواپسی بھی کی۔ حکومت کے مطابق اس اسکیم کے تحت کل 6,000پوسٹ میں سے 5,928پوسٹ بھری جاچکی ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اب خود کو محفوظ محسوس نہیں کررہے ہیں اور واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ ایک طرح سے دہشت گرد اقلیتوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ وادی میں ان کا خیرمقدم نہیں ہے۔
تشدد کی ہر حرکت، ہر شہری کی موت اس بات کو پختہ کرتی ہے کہ پولیس کا کشمیر میں حالات نارمل کرنے کا دعویٰ حقیقت کے قریب نہیں ہے۔ براہ راست جموں وکشمیر انتظامیہ متاثرین کے کنبوں کو یقین دہانی یا ان لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب نظر نہیں آرہا جنہیں ڈر ہے کہ انہیں اگلا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ جس طرح سے دہشت گرد چن چن کرموت تقسیم کررہے ہیں، وہ کسی لوکل ماڈیول کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتہاپسندی میں مقامی لوگوں کے کم ہوتے رجحان کی بات میں شک وشبہ برقرار ہے۔ ایسے میں اب یہ بھی واضح ہوجانا چاہیے کہ وادی میں سیاحوں کی آمد وہاں کی سیکورٹی کی صورتحال کا کوئی اشارہ نہیں ہے، نہ ہی یہ انتہاپسندی کے خلاف تیار ہورہے کسی مقبول عوامی رائے کی علامت ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ حکومت نے سختی کا مظاہرہ نہیں کیا ہو یا اس جانب کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن کشمیر کے اصل مسئلہ کو سمجھ کر ہی وادی میں ہورہے قتل کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔ جیسے خفیہ اور لوکل نیٹ ورک کو سرگرم اور مضبوط کرنا، فوج کے ساتھ دیگر سیکورٹی فورسز کی موجودگی دکھانا، آرٹیکل 370ہٹانے کے بعد پولیس کے کم ہوئی اہمیت کو پھر سے بحال کرنا، اقلیتوں کے علاقوں میں پٹرولنگ مستعد کرنے جیسے عمل کو تو رفتار دینے کی ضرورت ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ہی مقامی سطح پر اعتماد بحالی کے کچھ پختہ اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ یہ کشمیری پنڈتوں اور کشمیری نوجوانوں دونوں کے لحاظ سے اہم ہوسکتا ہے۔ بدلے حالات میں کشمیری نوجوان پھر مین اسٹریم سے دور ہٹتا نظر آرہا ہے جس سے ان کا دہشت گردوں کے پالے میں جانے کا خطرہ ہوگیا ہے۔ اس کا ایک پہلو جموں و کشمیر میں زمین اور سرکاری ملازمتوں کے تعلق سے مرکز کے ذریعہ نافذ کی گئی پالیسیوں سے بھی جڑتا ہے جسے مقامی لوگ اپنے لیے نقصان دہ مانتے ہیں۔ اس سے بڑھ رہے علیحدگی کے جذبہ کا علیحدگی پسند اور پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرداپنے فائدہ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اپنی کشمیر پالیسی پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ حکومت کو کشمیر میں جہادی ذہنیت سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ مقامی سسٹم کا بھی بہتر طریقہ سے استعمال کرنا ہوگا، جب کہ ایسا اس وقت نہیں ہورہا ہے۔ ایک اہم پہل دوبارہ سیاسی بات چیت شروع کرنے کی بھی ہوسکتی ہے۔ کشمیر کے مین اسٹریم کی سیاسی قیادت کی وادی میں اکثریتی اور اقلیتی دونوں طبقات میں سیاسی پکڑ اور معتبریت ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے طویل عرصے تک مسترد کرنا وادی میں جمہوریت اور عوامی زندگی کے نظام دونوں نظریہ سے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS