طالبان: عروج وزوال کی کہانی اور امریکی حکومت کا صرفہ

0

کابل (بی بی اردو):2001 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد ملک پر طالبان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا اور اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی اس گروپ نے پھر سے دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور ایک مرتبہ پھر افغانستان میں برسرِاقتدار آنے والے ہیں۔افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کیا ہے اتنا وہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔
یہ زمانہ قدیم کہاوت ہر دور میں سچ ثابت ہوئی ہے۔ سکندر ، مغل ، برطانوی ، سوویت یونین کے بعد امریکہ تازہ ترین مثال ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں 61 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ 2300 سے زائد امریکی فوجی مارے گئے۔ بالآخر اسے افغانستان چھوڑنا پڑا۔ اس گروہ کا نام جو 20 سالوں سے امریکہ سے بچ رہا ہے اور اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے وہ طالبان ہے۔
ایک دن پہلے یعنی 15 اگست 2021 تک طالبان نے دارالحکومت کابل سمیت پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ افغان فوج نے طالبان کے ساتھ معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ ایک بار پھر ، خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کی طاقت افغانستان میں طے ہو جائے گی۔
طالبان نے دو دہائیوں پر محیط جنگ کے بعد مئی 2021 سے ایک مربوط طریقے سے دوبارہ افغان فوج کی چوکیوں، قصبوں، بڑے شہروں سے متصل دیہات اور صوبائی ہیڈکوارٹروں کو قبضے میں لینا شروع کیا اور اگست کے مہینے میں ان کی پیش قدمی میں ایسی تیزی آئی کہ عسکری ماہرین ہوں یا دفاعی تجزیہ کار وہ سب کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے 15 اگست کو کابل میں داخل ہو چکے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان 2018 میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور فروری 2020 میں دونوں فریقین کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانے جبکہ طالبان نے امریکی فوجیوں کو حملوں سے بچانے کی ذمہ داری لی تھی۔
طالبان سے یہ وعدہ بھی لیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیرِانتظام علاقوں میں القاعدہ یا کسی دوسرے عسکریت پسند گروہ کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم اس معاہدے کے باوجود طالبان کی جانب سے افغان سکیورٹی فورسز اور سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
طالبان کا اقتدار تک کا سفر
’طالبان‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی’طالبعلم‘کے ہیں اور یہ سنہ 1990 کی دہائی میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے شمالی اضلاع میں طاقتور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر پشتون قومیت کے افراد پر مبنی اس تحریک نے مذہبی مدارس میں سر اٹھایا جنھیں سعودی عرب کی جانب سے امداد دی جاتی تھی اور جہاں سخت گیر سُنی اسلام پر مبنی نصاب پڑھایا جاتا تھا۔
طالبان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جس بیانیے کا پرچار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان علاقوں میں امن کی بحالی اور سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی اوراسلامی قانون یعنی ’شریعہ‘ کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا۔جنوب مغربی افغانستان سے طالبان نے آہستہ آہستہ ملک کے بیشتر علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا اور ستمبر 1995 میں انھوں نے ایران کی سرحد سے متصل صوبہ ہرات پر باقاعدہ قبضہ کیا اور اس سے ایک برس بعد ہی انھوں نے افغان دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا اور سوویت یونین کو شکست دینے والے افغان مجاہدین کے بانیوں میں سے ایک برہان الدین ربانی کو اقتدار سے ہٹا دیا۔سنہ 1998 تک طالبان نے افغانستان کے 90 فیصد علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
افغان عوام نے سوویت افواج کے انخلا کے بعد’مجاہدین‘کے اقدامات اور ان کے جانے کے بعد ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کو دیکھتے ہوئے طالبان کو خوش آمدید کہا۔ آغاز میں ان کی شہرت کی بڑی وجہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات، لاقانونیت کا خاتمہ اور علاقے میں سڑکوں کے قیام اور اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو بہتر بنانا شامل تھا۔
تاہم طالبان نے اسلامی سزاؤں کے نفاذ کا آغاز بھی کیا جیسے قتل کے مجرموں یا زنا کرنے والوں کو سرِ عام پھانسیاں اور چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ شامل تھی۔ مردوں کے لیے داڑھیاں رکھنا جبکہ خواتین کے لیے برقعہ پہننا لازمی قرار دیا گیا۔
افغان طالبان کی قیادت
طالبان نے ٹیلی ویژن، موسیقی اور سینما پر بھی پابندی عائد کر دی اور 10 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگا دی۔طالبان پر انسانی حقوق اور ثقافتی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال سنہ 2001 میں سامنے آئی جب طالبان نے وسطی افغانستان میں معروف بامیان بدھا کے تاریخی مجسمے تباہ کر دیے۔
القاعدہ کی ‘پناہ گاہیں’
دنیا کی توجہ صحیح معنوں میں طالبان پر اس وقت پڑی جب نیویارک میں 9/11 کے حملے ہوئے۔ طالبان پر ان حملوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔
سات اکتوبر 2001 کو امریکہ کی سربراہی میں اتحادی ممالک کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دسمبر کے پہلے ہفتے تک طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت چند اہم اشخاص کی تلاش میں دنیا کی سب سے بڑی مہمات چلائی گئیں لیکن اسامہ بن لادن، طالبان کے رہنما ملا محمد عمر اور دیگر سینیئر رہنما بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔اکثر سینیئر طالبان کمانڈروں نے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پناہ لی اور وہاں سے انھوں نے طالبان کو ہدایات دینا شروع کیں۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ’کوئٹہ شوریٰ‘ کی موجودگی پر لاعلمی کا اظہار کیا جاتا رہا۔افغانستان میں غیرملکی افواج کی تعداد میں اضافے کے باوجود طالبان نے آہستہ آہستہ اپنا کنٹرول واپس لیا اور پھر اس میں اضافے کرتا گئے۔ یوں ملک کے بیشتر علاقے غیر محفوظ ہو گئے اور ملک میں تشدد 2001 کی سطح تک جا پہنچا۔


طالبان نے کابل پر متعدد حملے کیے اور ستمبر 2012 میں گروپ نے نیٹو کے کیمپ بیسٹیئن اڈے پر بڑا حملہ کیا۔
سنہ 2013 میں مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کی امیدیں کچھ دیر کے لیے اس وقت بحال ہوئی تھیں جب طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولا تھا۔ تاہم دونوں اطراف موجود عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا رہا اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔اگست سنہ 2015 میں طالبان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انھوں نے ملا عمر کی موت کو دو سال تک چھپائے رکھا جن کی وفات اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔ اس سے اگلے مہینے گروپ کے مطابق اس نے اپنے ہی مختلف گروہوں کے درمیان ہفتوں پر محیط لڑائی کا خاتمہ کرتے ہوئے نیا رہنما چنا ہے یعنی ملا عمر کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے والے ملا منصور۔
اس دوران طالبان نے 2001 میں شکست کے بعد سے پہلی مرتبہ ایک سٹریٹیجک اہمیت رکھنے والے شہر قندوز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ملا منصور مئی 2016 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے اور ان کے متبادل کی حیثیت سے ہیبت اللہ اخونزادہ کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا اور وہ آج بھی گروپ کے سربراہ ہیں۔غیر ملکی افواج کی موجودگی اور افغانستان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور اسلحے کی فراہمی پر اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکا اور ملک کے دور دراز علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ وہ ان علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کرتے رہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے۔
ملک کے جن علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں اور وہ زور پکڑتے رہے ان میں جنوب اور جنوب مغربی علاقوں کے علاوہ شمال میں ہلمند، قندہار، ارزگان اور زابل کے صوبے شامل تھے۔ جنوب میں فریاب کی پہاڑیوں، شمال مغرب کی پہاڑیوں اور شمال مشرق میں بدخشاں کے پہاڑوں میں بھی طالبان کی سرگرمیوں کو نہیں روکا جا سکا۔
2017 میں بی بی سی کی طرف سے کرائے گئے تجزیے سے معلوم ہوا تھا کہ طالبان بہت سے اضلاع میں پوری طرح مستحکم ہیں۔ اس سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ وہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سرگرم ہیں اور ہفتہ وار یا ہر ماہ حملے کرتے رہتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ماضی میں لگائے جانے والے اندازوں سے زیادہ منظم اور مضبوط ہیں۔ملک کی ڈیڑھ کروڑ آبادی جو مجموعی آبادی کا نصف حصہ ہے وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتی رہی، جہاں طالبان کھلم کھلا موجود تھے اور مسلسل سرکاری فورسز پر حملے کرتے رہتے تھے۔
انخلا کا انتظار
فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کے بعد ایک برس تک طالبان نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہوئے شہروں اور فوجی چوکیوں پر حملے کرنے کی بجائے ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اپنایا اور افغان سویلینز میں دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔
طالبان کے حملوں کا نشانہ بننے والوں میں صحافی، امن کو فروغ دینے والے سماجی کارکن اور طاقتور عہدوں پر فائز خواتین سے یہ پتا چلا کہ ان کے شدت پسند نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف ان کی حکمت عملی تبدیل ہوئی۔
طالبان کا عسکری ڈھانچہ
افغان حکام کی جانب سے بین الاقوامی مدد کے بغیر طالبان کا مقابلہ نہ کر سکنے کے خدشات کے باوجود امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے اپریل 2021 میں اعلان کیا کہ تمام امریکی افواج افغانستان چھوڑ دیں گی۔ایک عالمی قوت کو دو دہائیوں تک اپنے اوپر حاوی نہ کرنے والے طالبان نے اب تیزی سے متعدد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا ہے اور پھر سے یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ غیر ملکی افواج کی غیر موجودگی میں کابل میں حکومت گرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
طالبان اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور نیٹو کے اندازے کے مطابق ان کے لشکر میں اب 85 ہزار جنگجو شامل ہیں۔طالبان نے 15 اگست تک ملک کے 34 میں سے 25 سے زیادہ صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور ملک کا کوئی بھی اہم شہر ایسا نہیں جہاں طالبان کا قبضہ نہ ہو۔ اس مرتبہ کی پیش قدمی میں طالبان کی توجہ شمالی افغانستان کے ان علاقوں پر خاص طور پر رہی ہے جو ان کے گذشتہ دورِ اقتدار میں ان کے زیرِ اثر نہیں آ سکے تھے۔
طالبان کی پیش قدمی اکثر فریقین کی سوچ سے زیادہ تیز بھی رہی ہے۔ جنرل آسٹن ملر جو افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں موجود مشن کے کمانڈر ہیں نے جون میں خبردار کیا تھا کہ ملک میں بدترین خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے جو دنیا بھر کے لیے ’خدشے کا باعث بن سکتا ہے۔‘امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے کیے گئے تجزیے کے مطابق افغان حکومت امریکی افواج کے انخلا کے چھ ماہ بعد ہی گر سکتی تھی تاہم طالبان انخلا کی حتمی تاریخ سے پہلے ہی کابل پہنچ کر اپنی حکومت بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS