صبیح احمد
طالبان اپنے اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مارچ کے وسط تک سیکنڈری کی لڑکیوں کے لیے اسکول کھول دیے جائیں گے۔ حسب وعدہ اسکولوں کو کھول تو دیا گیا لیکن کھلتے ہی اسکولوں کو پھر سے بند کر نے کا حکم جاری کر دیا گیا اور یہ اسکول تب تک بند رہیں گے جب تک کہ طالبان حکومت کی جانب سے حکم ثانی نہیں آ جاتا۔ افغانستان میں لڑکیاں اس وقت سے گھروں میں بند پڑی ہیں جب گزشتہ سال کے اگست میں قدامت پسند طالبان نے ملک کے اقتدار پر تقریباً 2 دہائیوں بعد دوبارہ قبضہ کیا تھا۔ آخر اچانک اس طرح کے فیصلے کیوںلیے گئے؟ پہلے لڑکیوں کے لیے اسکولوں کو کھولا گیا اور پھر کھلتے ہی انہیں پھر سے بند کر دیا گیا۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے خود طالبان کے اندر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ طالبان کی جانب سے بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ لڑکیوں کو اسلامی قوانین اور شریعت کے مطابق تعلیم دی جائے گی لیکن اس حوالے سے ان کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح نقشہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کو اسکولوں سے واپس بھیجنے اور انہیں گھر پر بٹھانے کے فیصلے کے پیچھے ان کے یونیفارم سے متعلق مسائل کارفرما ہیں۔ طالبان نے اس بار جب سے اقتدار سنبھا لا ہے، اسکولی نصاب، لڑکیوں کے اسکول جانے اور واپسی کے لیے ٹرانسپورٹیشن اور کلاسوں میں صنفی بنیاد پر علیحدگی جیسے مسائل زیر بحث رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ وسط مارچ میں جب لڑکیاں اسکول جائیں گی تو انہیں علیحدہ اور صرف خاتون اساتذہ کے ذریعہ تعلیم دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ دیہی علاقوں میں خاتون ٹیچروں کی کمی کے سبب عمر رسیدہ مرد اساتذہ بھی لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لیے مامور کیے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک کلاسوں میں لڑکیوں کے لڑکوں سے الگ بیٹھنے کا سوال ہے، سوشل میڈیا میں اکثر اس طرح کے کلاس روم کے فوٹوز وائرل ہوتے رہے ہیں جن میں لڑکیوں اور لڑکوں کو الگ کرنے کے لیے ان کے درمیان پردے لگے رہتے ہیں۔ افغانستان کو خاتون ٹیچرس کے دیرینہ مسئلہ کاسامنا رہا ہے۔ طالبان حکومت کی واپسی کے بعد یہ مسئلہ مزید سنگین ہو گیا ہے کیوں کہ طالبان کے خوف سے بہت سارے حکام اور سرکاری ملازمین ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے گئے ہیں۔ طالبان نے 2 دہائیوں قبل کے مقابلے اس بار مختلف حالات میں اقتدار سنبھالا ہے۔ 1996 میں خانہ جنگی کی وجہ سے ملک تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ ان حالات میں ایک نئی نسل تیار ہوئی ہے جو یاتو کم پڑھی لکھی ہے یا سرے سے ناخواندہ ہے اور تھوڑے بہت جو تعلیم یافتہ تھے وہ بھی ملک چھوڑ کر جا چکے۔
گزشتہ سال اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے کئی حکم نامے جاری کیے تھے جن میں خواتین کی ملازمت، سفر اور لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی جیسے اعلانات شامل تھے، جس کے بعد عالمی برادری نے نہ صرف طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاتھا بلکہ اوسلو کانفرنس کے موقع پر مغربی ممالک کے نمائندوں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد کو ملک میں خواتین کے حقوق، تعلیم، آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی فراہمی سے مشروط کیا تھا۔ بین الاقوامی دباؤ ، سخت اقتصادی حالات اور امداد پر عائد شرائط نے طالبان کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔رواں برس جنوری میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر تمام تعلیمی مراکز کھولنے کا عندیہ دیا تھا۔افغانستان میں 7 ماہ بعد مارچ میں اسکول کھل گئے اور پہلے روز کلاسز میں حاضری بھی زیادہ تھی لیکن اسکول کھلنے پر طالبات کی خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ طالبان نے لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کو ایک تکنیکی وجہ قرار دیا ہے۔ طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ ’افغانستان میں لڑکیوں کو اسکولوں سے منع نہیں کیا جا رہا ہے۔ صرف تکنیکی بنیادوں پر لڑکیوں کی یونیفارم پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے۔‘ دراصل طالبان کو یہ خدشہ ہے کہ اگر خواتین کواظہار کی آزادی دی جائے تو وہ نوجوان سپاہی جو ایک قدامت پسند نظریہ کو برسوں سے فالو کرتے آ رہے ہیں، وہ ناراض ہو سکتے ہیں۔ اس لیے طالبان عالمی برادری کا ہر قسم کا دباؤ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ 3 دہائیوں کے دوران طالبان نے کوئی ایسی سیاسی تنظیم نہیں بنائی جو معاملات کو صلاح ومشورے سے حل کرنے کی سوچ پر یقین رکھتی ہو۔ دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر چاہتا ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے جبکہ افغانستان میں موجود قیادت مقامی جنگجوؤں کو ناراض کرنا نہیں چاہتی۔ طالبان کے دوحہ دفتر کی قیادت چاہتی ہے کہ خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق جیسے مطالبات پر عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اپنی حکومت تسلیم کروالی جائے۔ لیکن اگر وہ جلد بازی میں عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں تو انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کے جنگجو ناراض نہ ہو جائیں جس پر طالبان قیادت کا تمام تر جنگی انحصار ہے۔ طالبان شاید اپنی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے خواتین کی تعلیم، روزگار اور آزادی اظہار کو اوزار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اگر عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کر لے تو وہ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
افغانستان میں طالبان کو اقتدار سنبھالے 7 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن افغانستان کے مسائل کم نہیں ہو رہے ہیں اور ملک مزید بحرانوں کی زد میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ آزادی اظہار ہو یا لڑکیوں کی تعلیم، روزگار ہو یا انسانی حقوق جیسے اہم معاملات ، طالبان قیادت نے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ گزشتہ برس 15 اگست کو اقتدار سنبھالنے کے بعد لوگ توقع کر رہے تھے کہ 20 سالہ جنگ کے بعد شاید طالبان کی سیاسی سوچ میں پختگی آئے گی اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد وہ اپنی سخت گیرپالیسیوں میں نرمی کا مظاہرہ کریں گے، تاہم حقیقت اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔ طالبان نے گزشتہ دنوں درجنوں خواتین کو محرم کے بغیر ہوائی سفر کرنے سے منع کر دیا۔ درجنوں خواتین مقامی اور بین الاقوامی فلائٹس کے لیے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ مرد نگراں کی غیر موجودگی میں وہ سفر نہیں کر سکتیں۔ادھر طالبان نے پرائیویٹ ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کو وائس آف امریکہ (وی او اے) اور برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے نیوز پروگرام دکھانے سے روک دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ 3 دہائیوں سے طالبان کی سوچ میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی جس کی بنیادی وجہ شاید ان کے درمیان آپس کی کشمکش ہے۔
[email protected]
تعلیم نسواں پر طالبان حکومت کا ’یو ٹرن‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS