طالبان سرکار فی الحال تسلیم نہیں: قطر

0
image:RRS Urdu

دوحہ(ایجنسیاں) : قطر کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے فوری طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اپنے مثبت بیانات اور وعدوں پر عمل کریں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پہلی بار ملک کا دورہ کیا۔ یہ کسی بھی غیر ملکی سفارت کار کا طالبان حکومت میں پہلا دورہ ہے۔ قطر کے وزیراعظم نے اپنے دورے میں طالبان وزیرِ اعظم ملّا محمد حسن اخوند سمیت اہم حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی اور قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی اور نئی حکومت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی کے اتوار کے روز اس اہم دورے کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں اور نہ ہی کوئی سرکاری اعلامیہ جاری ہوا ہے تاہم آج فرانسیسی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد پریس بریفنگ میں انھوں نے کچھ اہم انکشافات کیے۔
فرانسیسی وزیرِ خارجہ یاں ویز لیدریان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں قطر کے نائب وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان نے کہا کہ اس وقت طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہماری پہلی ترجیح نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ طالبان دنیا کے ساتھ کس طرح کے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں قطری نائب وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت تسلیم کرنے پر زور دینے سے کسی فریق کو فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم نے طالبان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بطور ثالث قطر کا کردار حقیقت پسندانہ رہا ہے اور یہ کہ طالبان کا دنیا سے تنہائی اختیار کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے مطابق انھوں نے طالبان پر واضح کیا کہ اپنے مثبت بیانات اور وعدوں پر قائم رہ کر ہی وہ عالمی دنیا کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں اور خواتین کی شمولیت کے ساتھ قومی حکومت کا قیام اس کی پہلی کڑی ہوگی۔ قطری نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ طالبان کو ایسی کئی اسلامی ریاستوں کا حوالہ بھی دیا جہاں مسلم خواتین کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل حقوق حاصل ہیں اور وہ کار مملکت میں بھی شریک ہیں۔ شیخ محمد بن عبدالرحمان نے بتایا کہ طالبان نے مثبت اشارے دیئے ہیں اور عالمی برادری سے تعلقات قائم کرتے ہوئے سفارت خانے کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاہم ابھی اْن کی جانب سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کے حالات کا جائزہ لے گا ساتھ اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس وقت تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک طالبان حکومت خواتین کو حقوق نہیں دیتے اور وہاں سے نکلنے کے خواہش مندوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتے ۔ امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان سے متعلق بریفنگ کے دوران انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہمیں افغانستان سے انخلا کے لیے ایک ڈیڈ لائن وراثت میں ملی تھی لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ملا تھا، سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ معاہدے اور امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد نائن الیون کے بعد سے طالبان مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں تھے جب کہ ہمارے پاس 2001 کے بعد زمین پر سب سے کم تعداد میں فوجی موجود تھے، صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی صدر بائیڈن کو فوری طور پر اس بات کا انتخاب کرنا پڑا کہ وہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ کریں یا اسے مزید بڑھاوا دیں۔ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اگر ہم سابق امریکی حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدے پر عمل نہ کرتے تو افغانستان میں ہماری افواج اور ہمارے اتحادیوں پر حملے دوبارہ شروع ہو جاتے، بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان میں بدترین حالات کے لیے تیاری کر رکھی تھی لیکن ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں کابل میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اور اس کی فوج اس طرح پسپا ہوجائے گی۔ اگر 20 سال کے دوران اربوں ڈالر کی امداد، ساز و سامان اور تربیت بھی افغان سکیورٹی فورسز اور حکومت کو مستحکم نہیں کرسکی تو پھر وہاں مزید کیوں رہا جاتا۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر نظرثانی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر امریکی وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا کہ ماضی میں پاکستان نے افغانستان میں حکومت کے قیام سے متعلق کئی اقدامات کئے، وہ طالبان کے ارکان خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو پناہ دینے میں ملوث رہا، یہ ہی وہ ملک ہے جو ہمارے ساتھ انسداد دہشت گردی کے مختلف نکات پر تعاون بھی کرتا رہا۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے بہت زیادہ مفادات ہیں جن میں سے کچھ ہمارے مفادات سے متصادم ہیں، ہم آئندہ دنوں میں اس بات پر غور کریں گے کہ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان نے کیا کردار ادا کیا ہے اور ہم مستقبل میں پاکستان کا کیا کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان افغانستان سے جانے کے خواہشمندوں کے محفوظ انخلا ، خواتین، بچیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں، پاکستان کو ان مقاصد کے حصول کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قانونی طور پر تسلیم نہ کرے جب تک وہ عالمی برادری کے مطالبات کو نہ مان لیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS