کابل(ایجنسیاں)
افغان وزارت داخلہ کے ذرائع نے العربیہ کو بتایا کہ طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے قائم مقام وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد سے لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیوں اور سکولوں کو دوبارہ کھولنے پر تبادلہ خیال کیا۔ذرائع نے مزید کہا کہ بین الاقوامی اور اندرونی دباؤ کے بعد طالبان نے مذمت کے طوفان کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی تناظر میں ذبیح اللہ مجاہد، سراج الدین حقانی، محمد یعقوب اور دیگر طالبان سپریم لیڈر ملا ہبۃاللہ سے ملاقات کیلئے قندھار جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔منگل 20 دسمبر کو طالبان نے افغانستان میں ویمن یونیورسٹیز کی تعلیم پر اگلے نوٹس تک پابندی لگا دی تھی۔ لڑکیوں کو صرف پرائمری سطح تک تعلیم کی اجازت دی گئی تھی۔ لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر اگلے نوٹس تک پابندی لگا دی، یعنی لڑکیاں اور خواتین صرف پرائمری سطح تک ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔پابندی کے اعلان کے اگلے روز بدھ 21 دسمبر کو مسلح محافظوں نے سینکڑوں نوجوان خواتین کو افغان یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔اس فیصلے پر طالبان کو بین الاقوامی غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے طالبان کے ہاتھوں افغان خواتین کے جبر کی شدید مذمت کی تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے طالبان کے فیصلے پر اپنی “گہری تشویش” کا اظہار کیا اورطالبان پر زور دیا کہ ہر سطح کی تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افغانستان میں لڑکیوں کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کرنے کے طالبان کے اعلان پر شدید عدم اطمینان کا اعلان کیا تھا۔ بلنکن نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ افغان خواتین بہتر کی مستحق ہیں۔ افغانستان بہتر کا مستحق ہے۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے طالبان کی قبولیت کی جستجو کو بلاشبہ ایک دھچکا لگا ہے۔افغانستان میں ہزاروں خواتین کو یونیورسٹیوں میں داخلہ کا امتحان دیا تھا اور اس کو تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ پابندی کا فیصلہ سامنے آگیا جس کے باعث خواتین شدید الجھن کا شکار ہو گئی ہیں۔