نریندرمودی
وزیراعظم ہند
’وسودھیو کٹمبکم‘ – یہ دو الفاظ ایک گہرے فلسفے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا مطلب ہے ’دنیا ،ایک خاندان ہے‘۔ یہ ایک ہمہ گیر نقطہ نظر ہے جو ہمیں سرحدوں، زبانوں اور نظریات سے بالاتر ہو کر، ایک عالمگیر خاندان کے طور پر ترقی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہندوستان کی جی-20 صدارت کے دوران اس نے انسان پر مرکوز ترقی کے مطالبے کی ترجمانی کی ہے۔ ایک کرہ ا رض کے طور پر ہم اپنی سرزمین کی فلاح و بہبود کے لیے یکجا ہو رہے ہیں۔ ایک خاندان کے طور پر ہم ترقی کے حصول میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم ایک ساتھ مل کر ایک مشترکہ مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ایک ایسا مستقبل جو کہ اس باہم مربوط اوقات میں، ایک ناقابل تردید سچائی ہے۔
وبا کے بعد کا عالمی نظام اوراس سے قبل کی دنیا بہت مختلف ہے۔ اس میں دیگر تبدیلیوں کے علاوہ تین اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
اولاً یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ دنیا کے جی ڈی پی پر مرکوز نظریہ سے ہٹ کر، اب انسانوں پر مرکوز نظریہ کی طرف تبدیلی کی ضرورت ہے۔
دوسرے یہ کہ دنیا ،عالمی فراہمی کے سلسلوں میں لچک اور بھروسے کی اہمیت کو تسلیم کر رہی ہے۔
تیسرا یہ کہ عالمی اداروں میں اصلاحات کے ذریعے کثیرالجہتی رجحان کو فروغ دینے کی اجتماعی ضرورت ہے۔
ہماری جی-20 صدارت نے ان تبدیلیوں میں ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
دسمبر 2022 میں، جب ہم نے انڈونیشیا سے صدارت کی تو میں نے لکھا تھا کہ جی20 کے ذریعے ذہنیت کی تبدیلی کو متحرک کرنا چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک، عالم جنوب اور افریقہ کے پسماندہ طبقات کی خواہشات کو مرکزی دھارے میں لانے کے تناظر میںخاص طور پر ضرورت تھی۔
وائس آف گلوبل ساؤتھ سربراہ کانفرنس، جس میں 125 ممالک نے شرکت کی تھی، ہماری صدارت کے تحت ہونے والے اولین اقدامات میں سے ایک تھا۔ عالم جنوب سے نتائج اور نظریات اکٹھا کرنے کے لیے، یہ ایک اہم کوشش تھی۔ مزید یہ کہ ہماری صدارت نے نہ صرف افریقی ممالک کی اب تک کی سب سے بڑی شرکت دیکھی ہے ،بلکہ اس نے افریقی یونین کوجی-20 کے مستقل رکن کے طور پر شامل کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
ایک دوسرے سے وابستہ دنیا کا مطلب ہے کہ تمام شعبہ جات میں ہمارے چیلنجز آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ 2030 کے ایجنڈے کا وسط سال ہے اور بہت سے لوگ بڑی تشویش کے ساتھ اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ ایس ڈی جیز سے متعلق پیش رفت سست روی کاشکار ہے۔ ایس ڈی جی پر پیش رفت کو تیز کرنے سے متعلق جی-20 کا سال 2023 کا ایکشن پلان، ایس ڈی جیز کو لاگو کرنے کے تئیں ، جی-20 کے مستقبل کی سمت کی رہنمائی کرے گا۔
ہندوستان میں فطرت اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا، زمانہ قدیم سے ایک معمول رہا ہے اور ہم اس جدید دور میں بھی،کلائمیٹ چینج میں اپنی حصہ داری نبھارہے ہیں۔
عالم جنوب کے بہت سے ممالک، ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں، اس لئے آب و ہوا سے متعلق کارروائی پر ایک تکمیلی تعمیلی اقدام ہونا چاہیے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے عزائم کو موسمیاتی مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
ہمارا ماننا ہے کہ کیا نہیں کیا جانا چاہیے، اس رجحان کے مکمل طور پر پابندی والے رویے کو ترک کرکے ، ایک زیادہ تعمیری اور ایسا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آب وہوا کی تبدیلیوں سے جدوجہد کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔
ایک پائیدار اور لچکدار ہمہ جہت معیشت کے لیے چنئی کے ایچ ایل پیز ،ہمارے سمندروں کوصاف ستھرا اور بیماریوںو گندگی سے پاک وصحت مند رکھنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
ہماری صدارت میں، ایک سبز ہائیڈروجن اختراعی مرکز کے ساتھ ساتھ، صاف اور سبز ہائیڈروجن کے لیے، ایک عالمی ماحولیاتی نظام وضع ہو گا۔
سن 2015 میں، ہم نے بین الاقوامی شمسی اتحاد کے نظریہ کا آغاز کیا۔ اب، گلوبل بائیو فیولز الائنس کے ذریعے، ہم ہمہ جہت معیشت کے فوائد کے مطابق، توانائی کی منتقلی کو فعال کرنے کے لیے، دنیا کی معاونت کریں گے۔
آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدام کو جمہوری بنانا، اس تحریک کو رفتار بخشنے کا بہترین طریقہ ہے۔ جس طرح افراد اپنی طویل مدتی صحت کی بنیاد پر روزانہ فیصلے کرتے ہیں، اسی طرح وہ طرز زندگی کے فیصلے، کرہ ارض کی طویل مدتی صحت پر پڑنے والے اثرات کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔ جس طرح یوگا صحت وتندرستی کے لیے ایک عالمی عوامی تحریک بن گیا ہے، اسی طرح ہم پائیدار ماحول کے لیے طرز زندگی کے ساتھ دنیا کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔
آب وہوا کی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے، خوراک اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا اہم ہوگا۔ جوار، یا شری اَنّ، اس میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی اسمارٹ زراعت کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ جوار باجرے کی زراعت کو فروغ دینے کے بین الاقوامی سال میں، ہم باجرے کو عالمی سطح پر لے گئے ہیں۔ خوراک کے تحفظ اور غذائیت سے متعلق، دکن کے اعلیٰ سطحی اصول بھی اس ضمن میں مددگار ثابت ہوںگے۔
ٹیکنالوجی تبدیلی کا باعث ہوتی ہے، لیکن اسے جامع بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ ماضی میں، تکنیکی ترقی کے ثمرات سے معاشرے کے تمام طبقوں کو یکساں طور پر فائدہ نہیں پہنچا۔ ہندوستان نے پچھلے کچھ سالوں میں یہ دکھایا ہے کہ ٹیکنالوجی کے عدم یکسانیت کو ختم کرنے کے لیے نہ کہ ان میں اضافہ کرنے کے لیے، کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، دنیا بھر میں اربوں لوگ جو بینک کی سہولیت سے محروم ہیں، یا ڈیجیٹل شناخت سے محروم ہیں، انھیں ڈیجیٹل سرکاری بنیادی ڈھانچے (ڈی پی آئی) کے ذریعے اقتصادی سرگرمیوں میں شریک کیا جائے۔ ہم نے اپنے ڈی پی آئی کا استعمال کرتے ہوئے جو حل تیار کیے ہیں ، انھیں اب عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ اب جی-20 کے ذریعے، ہم ترقی پذیر ممالک کے شراکت داری کو فروغ دینے کی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے ڈی پی آئی کو ڈھالنے، بنانے اور اس کو مزید فروغ دینے میں مدد کریں گے۔
یہ امرکہ ہندوستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے، کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے سادہ، قابل توسیع اور پائیدار حل نے، کمزور اور پسماندہ لوگوں کو ہماری ترقی کی کہانی کی قیادت کرنے کے لیے، بااختیار بنایا ہے۔ خلاء سے لے کر کھیل تک، معیشت سے لے کر انٹرپرینیورشپ تک، ہندوستانی خواتین نے مختلف شعبوں میں برتری حاصل کی ہے۔ انہوں نے خواتین کی ترقی سے وابستہ بیانیہ کو خواتین کی زیر قیادت ترقی کے امر کی جانب منتقل کیا ہے۔ ہماری جی-20 صدارت، صنفی ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے، لیبر فورس میں شرکت کے فرق کو کم کرنے اور قیادت و فیصلہ سازی میں خواتین کے لیے وسیع تر کردار کو فعال کرنے پر کام کر رہی ہے۔
ہندوستان کے لیے، جی-20 صدارت ،محض ایک اعلیٰ سطحی سفارتی کوشش نہیں ہے، بلکہ جمہوریت کی پروردہ اور تنوع کے نمونے کے طور پر، ہم نے اس تجربے کے دروازے دنیا کے لیے کھولے ہیں۔
آج، بڑے پیمانے پرپروجیکٹوں کو پورا کرنا ایک خوبی ہے، جو ہندوستان سے وابستہ ہے۔ جی-20 صدارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔ ہماری مدت صدارت کے اختتام تک، 125 ممالک کے تقریباً 100000 مندوبین کی میزبانی کرنے والے ہمارے ملک کے طول و عرض کے 60 ہندوستانی شہروں میں، 200 سے زیادہ اجلاسوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اتنی وسیع اور متنوع جغرافیائی وسعت کو کسی بھی صدارت نے اپنے اندر نہیں سمویاہے۔
کسی اور سے ہندوستان کی آبادی، جمہوریت، تنوع اور ترقی کے بارے میں سننا ایک الگ بات ہے۔ اس کا بذاتِ خود تجربہ کرنا بالکل مختلف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے جی-20 مندوبین اس کی تائید کریں گے۔
ہماری جی- 20 صدارت تقسیم کو ختم کرنے، رکاوٹوں کو ختم کرنے اور تعاون کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے ،جو ایک ایسی دنیا کو پروان چڑھاتی ہے، جہاں اختلاف پر اتحاد غالب ہوتا ہے، جہاں مشترکہ تقدیر تنہائی کو گرہن لگاتی ہے۔ جی-20 صدر کے طور پر، ہم نے عالمی تعاون کو وسیع کرنے کا عہد کیا تھا؛ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہر آواز کو سنا جائے اور ہر ملک اپنی اپنی حصہ داری کرے۔میں پراعتماد ہوں کہ ہم نے اعمال اور نتائج کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا ہے۔
٭٭٭