ترقی اور خوشحالی کے لیے جی-20 کی مشترکہ کوشش

0

ہندوستان اپنی جغرافیہ، قدیم تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے عالمی سیاست میں ایک اہم رول ادا کرتا رہا ہے۔ 1947 میں ملک کے دوٹکڑے ہونے کے باوجود ہندوستان نے اپنی عظمت کو برقرار رکھا تواس کی سب سے بڑی وجہ یہی اس کی مذکورہ بالا خصوصیات تھیں۔ ہندوستان کے سیکولرآئین اورجمہوری نظام نے ہندوستان کی عظمت کو دوبالا کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی مسابقت اور رقابتوںکے درمیان آج بھی ہندوستان عالمی سطح پر ایک قائدانہ رول ادا کر رہا ہے۔ ناوابستہ ملکوں کی تحریک کے اہم بانیان میں شامل ہندوستان نے دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ گاندھیائی فلسفہ نے بھی ہندوستان کو اہم مقام مرحمت فرمائی ہے۔ ایشیا کے اکثر ممالک ہندوستان کی تہذیب و فلسفہ سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں اور براعظم افریقہ جوکہ دنیا کے زرخیز ترین براعظموں میں شامل ہے، ہندوستان نے اس کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ناوابستہ تحریک میں جن ممالک کی رکنیت اورشمولیت رہی ان میں ان دو براعظموں ایشیا اور افریقہ کے اکثرممالک شامل رہے ہیں۔ آج ہندوستان دنیا کی 20 عظیم ترین طاقتوں اور معیشتوں میں شامل ہے۔ یہ طاقتیں آج ہندوستان کی قیادت میں ملک کی راجدھانی دہلی میں جمع ہورہی ہیں۔دہلی کے سب سے سرسبز و شاداب علاقے پرگتی میدان میں منعقدہونے والے اس نمائندہ اجلاس میں دنیا کی بڑی طاقتیں موجودرہیںگی۔ آج پوری دنیا کی نظریں دہلی اورہندوستان پر مرکوز ہیں۔
اگرہم جی-20ملکوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تویہ گروپ 2008 کے اقتصادی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے معرض وجود میں آیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا کی معیشت بدترین بحران سے دوچار تھی۔ اس وقت جی-20 ممالک کے وزرائے خزانہ نے اقتصادی بدحالی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ایجنڈے پر متفق ہونے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان ممالک نے حالات کو بہتر بنانے، معیشت کوپٹری پر لانے کے لئے چار ٹریلین کا ایک پیکیج بنایا تھا۔ اس اجلاس میں ممبرممالک نے تجارتی پابندیوں کوختم کرنے اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ یہ اجلاس اس وقت کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے کچھ مثبت تجاویز پیش کرنے میں کامیاب رہا تھا۔اس کے بعد جی-20ممبران نے اس گروپ کی سرگرمیوںکو اورزیادہ فعال بنانے اور دائرہ کار کوبڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ بعدمیں یہ گروپ سربراہان مملکت اور حکومت کی تواتر کے ساتھ میٹنگیں کرتا رہا اورایسا لگا کہ یہ جی-20 ممالک کا اقتصادی بلاک دنیا کی 60فیصدآبادی کواحاطہ کرنے والا اور عالمی معیشت کے 80فیصد کو نمائندگی دینے والا بن چکا تھا۔ جی-20ممبران اگرچہ 19ممالک کا گروپ ہے، مگر یوروپی یونین کو اکائی کی صورت میںاہمیت دی گئی اور یوروپی یونین ایک اہم ممبر کے طورپر اس اجلاس میں شریک ہوتا رہا۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی نے پچھلے دنوں یہ تجویز پیش کی تھی کہ یوروپی یونین کی طرح افریقی ممالک کے نمائندہ ادارے افریقی یونین کو بھی اس گروپ میں شامل کرلیا جائے تاکہ اس خطے کی نمائندگی بھی بھرپور انداز میں ہوتی رہے۔ خیال رہے کہ ان 20ممالک میں براعظم افریقہ کا صرف ایک ملک جنوبی افریقہ ہی شامل ہے، باقی ممالک میں ارجنٹائنا، آسٹریلیا، کناڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطا نیہ، امریکہ، یوروپی یونین اور ہندوستان ہیں۔ یہ سربراہ اجلاس دنیا کی 85فیصد جی ڈی پی اور دوتہائی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔
خیال رہے پچھلے دنوں جی-7ممالک کا ایک نمائندہ اجلاس جنوبی افریقہ میں ہوا تھا، جس میں روس کے صدر کی شمولیت کو لے کر کافی تنازع ہوا تھا۔ جیسا کہ توقع کی جارہی تھی کہ روس کے صدر اس اجلاس میں شامل نہیں ہوئے تھے، یہ باور کرادیں کہ روس کے صدر کے خلاف کئی عالمی اداروں نے وارنٹ جاری کررکھا ہے اور اگرچہ شروع میں یہ کہا جارہا تھا کہ جنوبی افریقہ کی برکس کے اجلاس میں وہ شرکت کرسکتے ہیں، مگر بعدمیں یہ واضح ہوگیا کہ وہ اس اجلاس میں شامل نہیں ہوںگے۔ عالمی سیاست پر گہری نظررکھنے والے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ممالک نے جنوبی افریقہ کی قیادت پر یہ دبائو ڈالا تھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کرے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ پوتن کو اس اجلاس سے دور رکھنے کا۔ جی- 20کے 9 اور 10ستمبر کے اجلاس میں بھی پوتن شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے صدر شی جن پنگ بھی شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میکسیکو کے صدر کا اس اجلاس میں شرکت کرنے کا بھی تردد کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ روسی صدر کی عدم موجودگی اس اہم اجلاس کے مقاصد اورایجنڈے پر اثرانداز نہیں ہوگی، کیونکہ عملی طورپر روس مین اسٹریم عالمی معیشت کا فی الحال حصہ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ روس اپنے الگ تھلگ پڑنے سے ہونے والے نقصان کو کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب رہا ہے، مگر چونکہ اس اجلاس میں مغربی ممالک کا غلبہ اور دبدبہ رہے گااور پوتن کی عدم موجودگی سے اس کے نتائج پر کوئی واضح اثرات مرتب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ چین کے صدر کی عدم موجودگی کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں، مگر چین کے وزیراعظم اپنے ملک کی نمائندگی کریںگے اورکسی حد تک شی جن پنگ کی عدم موجودگی کا ازالہ ہوجائے گا۔
روسی صدر کی عدم موجودگی کو کئی ماہرین غیرمناسب قرار نہیں دے رہے ہیں، بلکہ دبے الفاظ میں اس کو مستحسن ہی قرار دے رہے ہیں۔ ایک اندیشہ یہ تھا کہ اگر روسی صدر اس اجلاس میں شرکت کرلیتے تو اس اجلاس کا ایجنڈہ محدود ہوکر رہ جاتا اور تمام سرگرمیوں وسیاسی مباحث کا فوکس یوکرین جنگ پر ہی محدود ہوکر رہ جاتا، جبکہ اس اجلاس میں کئی اہم امورپر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یوکرین جنگ نے پوری دنیا کے سیاسی نظام کوبری طرح متاثرکیا ہے، مگر ہرچھوٹے بڑے فورم پر صرف یوکرین جنگ یا اس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر سوئی کو اکٹا دینا غیرمناسب ہے اوراس سے کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا ۔ یہ اجلاس کلائمیٹ چینج، عالمی کسادبازاری جیسے ایشوز پر فوکس ہے۔ یہ ایشوز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر عالمی اتفاق رائے قائم ہونی ضروری ہے۔ پوری دنیا کی نظریں اس بات پر بھی مرکوز ہیں کہ کیا اس اجلاس میں کوئی اتفاق رائے بنے گی کہ نہیں اورکوئی بیان جاری کرنے میں کامیابی ملے گی یا نہیں۔ یہ کہنا یا اس پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا کہ ابھی اس اجلاس کی شروعات میں دودن باقی ہیں اور عالمی سیاست میں 48گھنٹے کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں مثبت نتائج کی توقع کرنی چاہئے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS