تاباں : ترقی پسند تحریک کا ایک تابندہ فنکار : پرویز عادل ماحی

0

پرویز عادل ماحی
منشی پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں گائوں اور اس کی زندگی کا ایسا نقشہ کھینچاہے کہ ان کے بعد اکثر فنکار گائوں کی زندگی کی جانب مائل ہوئے اور ہمیشہ کے لئے گائوں کے ہوکر رہ گئے ۔ ہماری شاعری جو متمدن شہروں اور ریاستوں میں پروان چڑھی ، اس نے شہری زندگی اور اس کی خوبی کو موضوع سخن بنایا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دیہات و قصبات میں پیدا ہوئے ادیب و شعرا نے نہ صرف اردو اصناف سخن کی جولانیوں میں اضافہ کیا بلکہ وہ نقوش ثبت کئے جو مدت طویل گذرنے کے باوجود گہرے اور مزید گہرے ہوتے چلے گئے ۔ ڈپٹی نذیر احمد کے نام سے کون واقف نہیں جو نگینہ تحصیل کے گائوں ریہڑ میں پیدا ہوئے اور ناول کے مئوجد کہلائے ۔ یہ محض ایک نام ہے اور اس کی تفصیل میں جانے کا مطلب ایک نئے مضمون کا در وا کرنا ہے لیکن اسی قبیل میں ہمیں ایک اور نام بھی ملتا ہے کہ جس نے اترپردیش کی تحصیل فرخ آباد کے گائوں پتور میں آنکھ کھولی اور پھر تمام عمر غریب مزدور اور محنت کشوں کو ظلم و ناانصافی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کاسبق دیتا رہا ۔ یہاں میری مراد غلام ربانی فرحت سے ہے جو بعد میں ’’غلا م ربانی تاباں ‘‘کے نام سے مشہور ہوئے اور پھر تا عمر اسی نام سے جانے اور پہنچانے گئے ۔غلام ربانی تاباں کی پیدائش 15؍ فروری 1914ء کو ایک مہذب اور ادب نواز خانوادہ میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد علی گذھ چلے گئے ۔ آگرہ کے مشہور سینٹ جانس کالس سے گریجویشن کرنے کے بعد آگرہ کالج آگرہ سے وکالت کی تعلیم مکمل کی اور دوران تعلیم ہی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوگئے۔ اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز 1941 سے کیا۔ تاباں کے یہاں غزل کی کلاسیکی روایات اور اقدار کا گہرا شعور نظر آتا ہے ۔ غزل کی معروف روایت حسن و عشق اور رندی و سر مستی ان کے یہاں جس طرح بروئے کار آتی ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی اپنی نجی اور ذاتی شخصیت کے سبب اس میں ایک واقعیت پیدا ہو گئی ہے ۔ تاہم تاباں کی تمام تر کامیابی یا ہنر مندی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ سرما یہ سخن کی جو عظیم روایت ان تک پہنچی تھی وہ اس کی حفاظت اور نگہداری کے فریضہ سے کبھی غافل نہیں ہوئے ۔
ایک حساس دل اور سوچنے والے نوجوان تاباں ذہنی طور پر جنگ آزادی سے وابستہ ہوگئے۔ خوب تقاریر کیں اور اخبارات میں مضامین لکھے۔ جس کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ ان کے اندر کا شاعر اور مجاہد اسی دور میں پروان چڑھا۔۔جگر مرادآبادی کی صحبتوں نے ان کے ادبی ذوق اور شاعری کو پروان چڑھایا۔۔ جامعہ ملیہ کے تعلیمی اور ادبی ماحول نے ان کی شاعری کو جلا بخشی اور ترقی پسند تحریک کی تنظیم کو فروغ دیا اور کئی شہروں میں شاخیں قائم کیں۔
غلام ربانی کا دور جوانی تحریک آزادی کے شباب کا زمانہ تھا اور پورا ملک انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ ایسے دور میں وہ اپنے آپ کو انقلابی نعروں اور سرگرمیوں سے کیسے دوررکھ سکتے تھے، خوب تقریریں کیں، مضامین لکھے اور دومرتبہ جیل بھی جانا پڑا۔ 1931کی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کئی شعراء مصنفین و ناقدین آسمانِ ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ابھرے اورچمکے، مثلاً پریم چند، سجاد ظہیر،کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی،سید احتشام حسین، آلِ احمد سرور،اختر حسین رائے پوری عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیضؔ، جوشؔ ملیح آ بادی، حجازؔ لکھنوی،جذبی،ؔ مخدوم محی الدین، فراقؔ گورکھپوری، سردار جعفری، کیفیؔ اعظمی، مجروحؔ سلطانپوری، اخترالایمان وغیرہ وغیرہ۔ غلام ربانی تاباںؔ بھی انہیں میں سے ایک تھے اور ادبِ اردو میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ مدت دراز کے باوجود ایک عالم ان کے نام وکلام کا گرویدہ و شیدا ہے۔
غلام ربانی تاباں کا شمار صفِ اول کے ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے، مگر وہ ایسی شخصیت نہیں ہے جو سیاسی ضروریات اور تقاضوں سے متاثر ہوکر ترقی پسندوں سے وابستہ ہوئے تھے وہ بنیادی اور فطری طور پر مزدوروں او رکسانوں کے ہمدرد او رہم نوا تھے ۔ مزاج کی قلندری ان کی پوری شخصیت میں نمایاں تھی اور یہی مزاج ان کی ذاتی زندگی اور شخصیت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وہ فطری رجحان ہے جو ان کے فن میں شدت کے ساتھ موجود ہے۔ دہلی میں قیام کی وجہ سے ان کی شخصیت میں یہاں کے سماجی روّیے صاف دکھائی دیتے ہیں دہلی کے فسادات میں قیام امن کی کوششوں میں تاباں صاحب سرکردہ شخصیات کے شانہ بشانہ دکھائی دیتے بلکہ ہر فساد میں مرحم لگانے والوں کے ساتھ ساتھ آگے آگے قائدانہ رول ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ان کے اند رکا حساس شاعران کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ تاباں کو میدان کار زار اور میدان عمل میں لاتا ہے، یہی وہ مزاج ہے جو فسادات کو روکنے میں ناکامی پر حکومتوں کو آئینہ دکھاتا ہے او راعزاز واپس کرکے اپنی ناراضگی ظاہر کرتا ہے،علی گڑھ اور مرادآباد فسادات میں سرکار کی ناکامی پر ناراض ہوکر انہوں نے پدم شری کا اعزاز واپس کرکے ایک باشعور او رحساس شہری کی ذمہ داری نبھائی۔ تاباں کو مسلمانوں کے معاملات سے غیر معمولی دلچسپی تھی یہ کوئی تنگ نظری کی بات بھی نہیں ہے بلکہ وہ مانتے تھے کہ اگر مسلمان کمزور اور بد دل رہیگا تو ہندوستان میں قومی کام بہت مشکل ہوجائیں گے ۔ وہ ہندو اور مسلمان دونوں کی شدت پسندوں کے یکساں طور پر مخالف تھے اور مذہبی جنون کو ملک و قوم کے لئے خطرناک مانتے تھے ۔اور شدت سے اس بات کے قائل تھے ملک کی سیکولر شناخت کو قائم رکھنے کے لئے سیکولر سیاسی جماعتوں اور رائے دہندگان کا متحد ہونا ضروری ہے۔
غلام ربانی تاباں کے فن میں سیاسی رنگ نمایاں ہے۔
اکیسویں صدی کا موجودہ منظر نامہ جبکہ پوری دنیا فی الوقت عجیب سیاسی صورتحال سے دوچار ہے، کوئی ملک ایسا نہیں کہ جہاں حکمراں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اپنے عوام پر مختلف طریقوں سے مظالم نہ ڈھا رہے ہوں۔ عوام کو مکمل طور پر محکوم بنانے کے لیے جو بھی حربے اختیار کیئے جا سکتے ہیں وہ بے دریغ استعمال نہ کر رہے ہوں۔ چاہے خود کو مہذب گرداننے والے ترقی یافتہ مغربی ممالک ہوں یا دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک، بیشتر ممالک میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی ایک ہوڑ لگی ہے اور اس ہوڑ میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو وہ ہیں عوام یا پھر ہر ملک کا محکوم طبقہ۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر حکومتیں وجود میں توآرہی ہیں، مگر جمہوریت کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ یہاں حکمراں جماعت کس طرح اقتدار میں آتی ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔آپ مارکسزم سے بے حد متاثر رہے ہیں۔ کارلی مارکس کے علاوہ آپ نے بی۔ ای۔ یسٹن ، اسٹالن اور فریڈرک اینگل وغیرہ سے بھی گہرا اثر قبول کیاہے۔ آپ غریبوں، مزدوروں،دلتوں، کسانوں اور مظلوموں کے سچے اور پکے ہمدرد تھے۔ بغاوت ، صداقت، قناعت اور محبت تاباںؔ کا دھرم اور ایمان دونوں ہیں۔
رفعت سروش نگینوی کے مطابق
بغاوت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
صداقت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
قناعت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
محبت جس کو کہتے ہیں اسی کا نام ہے تاباںؔ
تاباںؔ کی شاعری تمام تر غزلوں اور نظموں پر مبنی ہے۔ تاباںؔ نے غزل میں نیا رنگ وآہنگ پیدا کیا۔ آپ کے نزدیک شاعری صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں۔ آپ شاعری کو مقصدیت کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں۔ تصوف اردو شاعری کا خاص موضوع رہا ہے ۔اردو شاعری نے فارسی شاعری سے بہت کچھ مستعارلیاہے مثلاً الفاظ و تراکیب، تلمیحات، استعارات و تشبیہات، بحور وقوافی وغیرہ۔ اسی طرح خمریات بھی عجمی شاعری کا اہم موضوع رہا ہے۔ چنانچہ ار دوشاعری نے بھی خمریات کو موضوعِ سخن بنایا۔ بعضوں نے صرف رسمی طور پر اسے استعمال کیا ہے اور بعض تو اس کے لطف و سرور سے بھی آشنا رہے ہیں۔ تاباںؔ نے بھی خمریات پر کثرت سے شعر کہے ہیں۔ خمریات کو آپ نے نت نئے انداز سے پیش کیا ہے۔
تاباںؔ نے میدان شعر گوئی کی طرح میدانِ نثر میں بھی کامیاب اضافے کیے۔ آپ کی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ’ہوا کے دوش پر‘ کے عنوان سے زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکاہے۔ اردو کے علاوہ آپ نے ہندی اور انگریزی میں بھی ادبی، سیاسی اور قومی موضوعات پر مضامین و مقالات سپرد قلم کیے ہیں۔ انگریزی مضامین کا مجموعہ بھی طبع ہوچکا ہے۔
تاباںؔ کو مختلف اوقات میں مختلف اعزازات و انعامات سے نوازا گیا۔1973ء میں ’’سوویت لیڈ ہزو‘‘ ایوارڈ سے سرفراز ہوئے۔ علاوہ اس کے شعری و ادبی خدمات کے صلے میں صدر جمہوریہ ہند نے ’’پدم شری‘‘ جیسے بھاری بھرکم اعزاز سے نوازا لیکن 1977-78 میں مرادآباد اور علی گڑھ کے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ اعزاز حکومت کو لوٹا کر نظام حکومت و سیاست کو آئینہ دکھایا تھا
تاباں صاحب کے چار شعری مجموعے منظر عام پرآئے ساز لرزاں، حدیث دل، ذوق سفر اور نوائے آوارہ، نوائے آوارہ پر 1971میں ساہتیہ اکیڈمی نے انعام سے نوازا تھا۔
قمر رئیس کا کہنا ہے کہ:
تاباں نے بعض ترقی پسند کے اس تصور کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا کہ غزل کو فکری اور جذباتی ایذہ کاری سے پاک کرکے ایک موڈ کا پابند کیا جائے۔ ان کی غزلوں میں حزن پاس بھی ہے اور غم ونشاط بھی، انسانیت پر اعتماد بھی ہے برہمی او راحتجاج بھی ہے، حوالوں کے دھند لکے بھی، حقیقت کی روشنی بھی، تنہائی اور یادوں کا عذاب بھی اور انسانوں کی قربت کا حوصلہ خیز احساس بھی۔ الغرض ان کی غزلوں میں ہر طرح کے تلخ وشیریں تجربات اندیشے اورآرزو مندیاں، موج اور موج اٹھتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS