شام اور عراق کی جیلوں میں قید ہیں ہزاروں بچے

0

واشنگٹن (ایجنسیاں) :شام کی غویران جیل پر داعش کا حملہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کے بعد ناکام تو بنا دیا گیا ہے مگر اس حملے کے دوران ایک قیدی بچے کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات شام اور عراق کی جیلوں میں قید ہزاروں بھولے ہوئے بچوں کی صورتحال منظرعام پر لے آئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہزاروں کی تعداد میں اپنے جنگجووں کی رہائی کے لیے داعش کی جانب سے شام کے شمال مشرقی علاقے کی غویران جیل پر کار بم دھماکوں کے ذریعے حملہ کیا گیا۔ اسی دوران جیل کے اندر موجود ان کے ساتھیوں نے افراتفری پھیلانے کے لیے کمبلوں اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں آگ لگ دی۔اس دوران ایک نوعمر بچے کی جانب سے مدد کے لیے بھیجے گئے کئی صوتی پیغامات نے عراق اور شام کی پر ہجوم جیلوں میں قید ہزاروں ایسے بچوں کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ سیرین ڈیموکریٹک فورسزنے، جن کی کمانڈ کردش ملیشیا کے ہاتھوں میں ہے، ایک ہفتے کی مسلسل کوششوں کے بعد بدھ کے روز غویران جیل کا آخری حصہ بھی داعش کے قبضے سے چھڑا لیا جہاں ان کم عمر قیدیوں کو داعش کی جانب سے بطور انسانی ڈھال استعمال کیا جا رہا تھا۔ مگر ان بچوں کا مستقبل ابھی غیر یقینی ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال مشرق وسطیٰ کی ترجمان جولیٹ ٹوما نے بتایا کہ غویران جیل میں قید یہ قریباً 800 بچے ہیں جو بڑوں کی گنجان آباد جیل میں قید ہیں اور موجودہ حملے نے ان کے لیے حالات مزید ناسازگار کر دیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق موجودہ حملے میں کئی بچے ہلاک جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کو ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے موصول ہونے والے جیل کے اندر سے بھیجے گئے17 سالہ آسٹریلین شہری کے وائس نوٹس میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ مدد کے لیے پیغامات بھیج رہا ہے۔ اس بچے کے مطابق اس کے سر پر چوٹ لگی ہے اور خون بہہ رہا ہے۔ اس بچے کے پیغامات میں یہ بھی سنا جا سکتا ہے کہ حملے میں اس کے دوست مارے گئے ہیں اور اس نے8 سے12سال کی عمر کے بچوں کی بھی لاشیں دیکھی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچے کون ہیں اور شام اور عراق کی جیلوں میں کیا کر رہے ہیں؟ ان میں بہت سے بچے ایسے ہیں جنہیں ان کے والدین 2014 میں خود ساختہ قائم کی گئی دولت اسلامیہ میں رہنے کے لیے مختلف ممالک سے اپنے ساتھ لے آئے تھے، جبکہ بعض والدین کی یہاں ہجرت کے بعد پیدا ہوئے۔جب داعش عراق اور شام میں قتل عام کر رہی تھی اور خواتین اور لڑکیوں کو غلام بنایا جا رہا تھا، اس کے جنگجو کبھی تحائف، کبھی دھمکیوں اور کبھی ورغلا کر کم سن بچوں کو دولت اسلامیہ میں بھرتی کرنے کا کام بھی رہے تھے۔اطلاعات کے مطابق ان میں سے بہت سے بچے داعش کے تحت چلنے والے اسکولز میں تربیت حاصل کرتے رہے۔ کمسن لڑکوں کو تربیت حرب کے ساتھ خود کش حملہ آور کے طور بھی تیار کیا جاتا رہا۔ کئی وڈیوز میں انہیں سفاکی سے داعش کی جانب سے قید کیے جانے والوں کا سر قلم کرتے ہوئے یا گولیوں چلاتے دیکھا گیا۔ مبصرین کے مطابق ، داعش کی اس کوشش کا مقصد دراصل اپنی ریاست کے لیے اگلی نسل تیارکرنا تھا۔
داعش کے حلقوں میں ان بچوں کو “دولت اسلامیہ کے کمسن شیر” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ داعش پر مقامی ملیشیا کی چڑھائی اور اس کے نتیجے میں داعش کی پسپائی کے دوران گرفتار ہونے والے ان بچوں کو گنجان آباد جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
دیگر بچوں کو شام کے شمال مشرق میں واقع کیمپس بھیج دیا گیا جہاں کئی مشتبہ داعش جنگجووں کیخاندانوں کو رکھا جاتا ہے۔ ان کیمپس میں موجود بچوں کو تشدد اور زیادتی کا سامنا بھی رہا ہے۔ جب یہ بچے اپنی ماؤں سے جدا رہنے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں انہیں بھی جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بچے جیلوں میں کیوں قید ہیں؟
ہیومن رائٹس واچ کی کارکن لیٹا ٹیلر کے مطابق برسوں سے قید ان بچوں کے بارے میں یہ بھی طے نہیں ہو پایا ہے کہ آیا انہیں داعش کی جانب سے تربیت دی بھی گئی تھی یا نہیں ؟ یا انہوں نے کوئی جرم کیا بھی تھا یا نہیں؟ یہ بچے دراصل اس لیے اب تک ان جیلوں میں قید ہیں کیونکہ ان کی حکومتیں انہیں واپس لینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ کردش حکام کی جانب سے متعدد بار متعلقہ ملکوں کی حکومتوں سے اپنے شہریوں کو واپس بلانے کی درخواست کی جا چکی ہے۔ مگر یہ حکومتیں ان کی واپسی اور بحالی میں دلچسپی لینے کے بجائے انہیں اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔کردش حکام کے مطابق نا مساعد حالات میں ان بچوں کا جنگجووں سے بھری ان جیلوں میں مستقل رہنے کا مطلب یہ کہ داعش کی اگلی نسل انہی جیلوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔بعض سابقہ سوویت ممالک نے کچھ شہری واپس لیے بھی ہیں مگر عرب، افریقہ اور یورپی ممالک گنتی کے شہریوں کے علاؤہ بقیہ کو واپس لینے سے انکار کر چکے ہیں۔کرد حکام نے شمال مشرقی شام میں دو درجن سے زائد جیلوں کا انتظام سنبھالا ہوا ہے جن میں داعش کے تقریباً دس ہزار جنگجو قید ہیں جب میں دو ہزار کے قریب غیر ملکی ہیں۔
ساٹھ مختلف قومیتوں کے 27 ہزار پانچ سو بچے الحول کیمپ میں اپنے خاندانوں کے ساتھ مقید ہیں۔ ان بچوں کو نہ تعلیم کی سہولت میسر ہے نہ کھیلنے کودنے کی جگہ اور بظاہر ایسا بھی نظر نہیں ا تا کہ دنیا کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے بارے میں کوئی دلچسپی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہاں سے نکل کر اپنے ملک میں بہتر اور محفوظ مستقبل ان بچوں کا بنیادی حق ہے اور دنیا کی جانب سے اس سلسلے میں اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔
(اس خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS