شام: تشدد اور تباہی کے 10 برس!

0

ڈاکٹر مشتاق احمد
تاریخ اسلامیہ میں خطۂ دمشق کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ قبل از اسلام بھی یہ خطہ پیغمبروں اور نبیوں کی جائے سکوں رہا ہے اور قیامت سے قبل اس خطے میں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کی قدم آوری ہوگی۔ موجودہ فلسطین، لبنان، اسرائیل بھی ملک شام کا ہی حصہ تھی ۔ تاریخ میں یہ حقیقت درج ہے کہ طوفان نوح کے بعد یہ علاقہ آباد ہوا اور حضرت شام کے نام سے یہ شہر منسوب ہوا۔ یوں تو دور اول سے ہی اس علاقے کی اہمیت رہی ہے لیکن حضور اکرمؐ نے عرب سے کہیں باہر قدم رکھا تو وہ یہی خطہ ہے۔ تغییر زمانہ کے ساتھ ساتھ یہاں کے سیاسی حالات بھی بدلتے رہے اور اس کی جغرافیائی سرحدوں میں بھی تبدیلی ہوتی رہی۔ امیر تیمور نے قدیم دمشق کی تہذیب کو جس طرح تہس نہس کیا، وہ بھی عالمی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ نے بھی اس علاقے کی انسانی زندگی کو دشوار کن بنایا۔ پھر فرانس کی تحویل میں برسوں رہنے کی وجہ سے بھی شام، جسے سیریا بھی کہا جاتا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کا مرکز بن کر رہا اور جب فرانس سے آزاد ہوا تو دیگر مغربی ممالک کی نظر بندی کا شکار ہو گیا۔ غرض کہ شام کے عوام کی زندگی ہمیشہ اذیت ناک حالت سے دو چار رہی ہے۔ جہاں تک عصر حاضر کے تشویشناک حالات کا سوال ہے تو ان حالات کے لیے موجودہ حکومت کے سربراہ بشارالاسد کا غیر دانش ورانہ سیاسی عمل اورمغرب پرستی ذمہ دار ہے۔ واضح ہو کہ بشارالاسد اپنے والد حافظ الاسد کے بعد ملک کے سربراہ بنے اور عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی امریکی سازش کے شکار ہو گئے۔ اب روس اور ایران کو بھی موقع مل گیا کہ وہ شام میں اپنی پیٹھ بنا سکیں اور یہی ہوا بھی کہ آج کے حالات کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں ان ملکوں کا بڑا حصہ ہے۔ اب ترکی بھی اپنی سیاسی روٹی سینک رہا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جب عرب اسپرینگ احتجاج کا آغاز ہوا تو 15 مارچ، 2010کو شام میں بھی لوگوں کا احتجاج شروع ہوا۔ بشارالاسد کے خلاف ماحول پیدا کرنے والے مغربی ممالک ہی تھے۔ اگر اسد اس وقت سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر احتجاج کرنے والوں سے گفت و شنید کا راستہ اختیار کرتے تو شاید اتنے بھیانک نتائج سامنے نہیں آتے۔ 5 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ معذور بن کر اذیت ناک زندگی گزارنے والوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر در بدری کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔
عالمی برادری شام کے حالات سے واقف ہے مگر اس کی جانب سے اس خانہ جنگی کو ختم کرنے کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر تشویش ظاہر کی گئی ہے مگر عمل کاغذی ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک دہائی سے شام بم دھماکوں اور خون ریزی کا ملک بن کر رہ گیا ہے۔ عالمی برادری اور عالمی پنچایت تماشائی بنی انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی جانوں کی تلفی دیکھ رہی ہے۔ آخر کیوں؟ عرب امارات کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شام کی خانہ جنگی مستقبل میں اس کے لیے بھی درد سر بن سکتی ہے۔ آج بھلے عرب کے شاہ جنگ کرنے والے افراد کی مدد کر رہے ہوں لیکن مغربی ممالک کی سیاست ان کو بھی اپنا شکار بنائے گی، اس لیے شام کی خانہ جنگی صرف شام کی سیاست کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی سازش عالمی سطح کی ہے۔ آج ادلب اور دمشق شہر میں ہی جنگجوؤں کو کامیابی حاصل ہے۔ اس وقت بھی مختلف مقامات پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں اور بشارالاسد حکومت آزادی کا مطالبہ کرنے والے افراد کو کچلنے کے تمام حربے استعمال کر رہی ہے جس سے ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ عالمی برادری دن رات حقوق انسانی کے تحفظ کی وکالت کرتی ہے مگر شام کے حالات سے انجان معلوم ہوتی ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اب شام کی خانہ جنگی صرف بشار الاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان کی جنگ نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس سیاسی جنگ نے مذہبی انتہا پسندی کا روپ اختیار کر لیا ہے ۔ سنی جماعت اور شیعہ جماعت کے درمیان دیوار یں کھڑی ہو گئی ہیں اور کرد بھی اپنی آزادی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ اب کئی انتہا پسند گروپوں نے بھی شام میں اپنے قدم جمالیے ہیں۔ القا عدہ اور دیگر ایسی تنظیمیں بھی فعال ہو گئی ہیں۔ ترکی کا اپنا مفاد ہے کہ وہ کرد کو استعمال کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بشار الاسد کو ایک ساتھ کئی مورچے سنبھالنے پر رہے ہیں۔ اگرچہ ان تنظیموں کے فعال ہونے کی وجہ سے ان گروپوں کو نقصان پہنچا ہے جو اسد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اسلامی اسٹیٹ کے خواہاں ہیں۔ بشار الاسد خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مختلف مقامات پر مختلف جماتوں کے ساتھ جنگ چل رہی ہے اور اس کی وجہ سے ان تنظیموں کی حکمت عملی بھی الگ الگ ہے۔ اس کا فائدہ حکومت کی فوج کو ملتا ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ شام کے عوام کی دشوار کن زندگی کو آسان بنانے کی کسی جانب سے کارآمد پہل نہیں کی جا رہی ہے۔ اسلام کے نام پر جنگ لڑنے والے افراد کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس رخ پر لے جانا چاہتے ہیں، کیونکہ جب انسان بچیں گے ہی نہیں تو ملک کی ’آزادی‘ کا مطلب کیا ہوگا،ذرا غور کیجیے۔
شام کی جنگ نے اپنے پڑوسی ممالک میں اس طرح پیغام کو پھیلایا ہے کہ اس خانہ جنگی میں اگرکسی مذہبی سیاست کو فروغ دینے کے لیے کوئی ملک شام کے ساتھ نہیں آ رہا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ تنظیم اپنے مفاد کی خاطراس خانہ جنگی کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ خیر، شام میں جاری تشدد کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ n
(مضمون نگار ایل این متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ میں رجسٹرار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS