دنیا میں بونڈر چین پر سرینڈر

0

اقوام متحدہ انسانی حقوق کے ریٹائرڈہائی کمشنر کی رپورٹ نے چین میں اویغور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے مسئلے کو ایک بار پھر موضوع بحث بنا دیا ہے۔ 45صفحات کی اس رپورٹ میں شنجیانگ خطے کے درجنوں اویغور مسلمانوں کے انٹرویو ہیں، جن کی روح کنپانے والی تفصیل کا موازنہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ سے کیا گیا ہے۔ انٹرویو میں متاثرین نے بتایا ہے کہ کیسے انہیں کرسی سے باندھ کر ڈنڈوں سے پیٹا گیا، پوچھ گچھ کے دوران چہرے پر پانی پھینکا گیا، طویل وقت تک تنہائی میں رکھا گیا، لگاتار نگرانی کی گئی، نیند اور کھانے سے محروم رکھا گیا اور اپنی زبان بولنے یا اپنے مذہب کی پیروی کرنے سے روکا گیا۔ کچھ نے عصمت دری، جنسی زیادتی اور جبراً عریانیت سمیت جنسی تشدد کی بے شمار باتیں کہی ہیں۔ وہیں کئی متاثرین کو علاج کے بارے میں بتائے بغیر جبراً انجکشن اور گولیاں تک دی گئیں۔ اتنا ہی نہیں، حجاب اورغیر معمولی طور سے بڑی داڑھی رکھنے، بچوں کو مسلم نام دینے اور رمضان کے دوران ریستوراں بند رکھنے پر روک لگانے کے لئے بھی ان پر نئے ضوابط تھوپے گئے۔
رپورٹ میں سب سے زیادہ حیران کن دعویٰ اویغور مسلمانوں کی شرح پیدائش میں چین کے مقابلے میں ہوئی تیز گراوٹ ہے۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے انٹرویو دینے والوں نے جبراً نسبندی سمیت جبراً آختہ کرنے کی بات کہی ہے۔ رپورٹ میں چین کے مبینہ نگرانی نیٹ ورک کا بھی تفصیل سے ذکر ملتا ہے، جس میں پولیس ڈاٹا بیس میں بائیومیٹرک ڈاٹا جیسے چہرے اور آنکھوں کے اسکین کے ساتھ سیکڑوں ہزاروں فائلیں ہیں، جو یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ وہاں کس طرح سے اویغور مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور آزادی کی ہر پل دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
ویسے یہ دعوے نئے نہیں ہیں۔ پانچ سال پہلے، امریکی محکمہ خارجہ نے چین پر 20لاکھ اویغور اور دوسری اقلیتوں کو ڈیٹنشن مراکز میں رکھنے کا الزام لگایا تھا۔ گزشتہ سال امریکہ نے اپنی زبان سخت کرتے ہوئے اویغور مسلمانوں کے استحصال اور ہراساں کرنے کو نسل کشی تک بتایا تھا۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ سے ہوا انکشاف بتاتا ہے کہ تمام سختی دکھانے کے باوجود چین کے رویہ میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اس کے باوجود یہ رپورٹ اہم ہے کیونکہ اس دفعہ پہلی بار الزامات پر اقوام متحدہ کی رسمی مہر لگی ہے۔ اس لئے یہ بھی پہلی بار ہی ہوا ہے کہ زبانی جمع خرچ کرنے کی جگہ اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے چین کو 131صفحات کی رپورٹ جاری کرنی پڑی ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، اس لئے چین کے رخ میں رتی برابربھی بدلائو کی امید کرنا بے وقوفی ہی ہوگی۔
بہر حال دوسری طرف دو باتیں امید کے مطابق ہی ہوئی ہیں۔ پہلی، امریکہ سمیت مغربی ممالک نے اس رپورٹ کاخیر مقدم کیا ہے؛ اور دوسری، مسلم آبادی پر ظلم اور ستم کے اتنے بڑے انکشاف کے باوجود اسلامی ملکوں میں سناٹا ہی پسرا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہی ملک ہیں، جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلام سے جڑے مسئلوں پر طوفان کھڑا کر دیتے ہیں، لیکن چین کے معاملے میں سرینڈر کر دیتے ہیں۔ پیغمبر محمدؐ کے کارٹون کی مخالفت میں فرانس میں اخبار کے دفتر پر حملے سے لے کر ہندوستان میں پیغمبر محمدؐ پر تبصرہ پر ’سرتن سے جدا‘ کا فتویٰ جاری کرنے والے تمام مسلم ملکوں کی چین کی اس حرکت پر بولتی بند ہے۔ اسلامی ملکوں کا سربراہ مانا جانے والا سعودی عرب ہو یا پاکستان یا پھر ملیشیا، سبھی ملک خاموش ہیں۔ ایران تو پہلے ہی اویغوروںکے استحصال کو اسلام کی خدمت بتا چکا ہے۔
اسلامی ملکوں کے دوہرے معیار کا حال یہ ہے کہ مخالفت کا اظہار تو دور، اگر کوئی اویغور مسلمان کسی طرح چین سے نکل کر ان ملکوں میں پہنچ بھی جاتا ہے، تو یہ ملک اسے واپس چین کو سوپننے کے لئے اتائولے ہوجاتے ہیں۔ اس معاملے میں مصر، سعودی عرب، یو اے ای سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2017کے بعد سے اکیلا مصر ہی 200 اویغور مسلمانوں کو چین کو سونپ چکا ہے۔ جب مغربی ملک شنجیانگ میں اویغور مسلمانوں کو مبینہ استحصال کا معاملہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں لے گئے، تو چین کے ساتھ کھڑے ہونے والے 37ملکوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، پاکستان، الجیریا، بحرین، ترکمانستان، اومان، قطر، شام، کویت، صومالیہ ، سوڈان جیسے اکثریتی مسلم ممالک شامل تھے۔
دراصل، خاموشی کے اس پورے کھیل کے پیچھے ایک بڑا معاشی نظام کام کررہا ہے، اور اس معاشی نظام کو جاری رکھنے کا کام کررہا ہے چین کا بہت ہی اہم ’بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو‘۔ دنیا بھر میں اپنے پروڈکٹ کی توسیع میں مصروف چین کا یہ پروجیکٹ ایشیا، افریقہ، یوروپ اور اوشینیا کے 78ملکوں کو ریل مارگ، شپنگ لین اور دیگر نیٹ ورک کے توسط سے جوڑتا ہے۔ اس میں مشرق وسطیٰ کے کئی مسلم ممالک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چین نے 50مسلم ملکوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ’امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹویٹ اینڈ دی ہیریٹیج فائونڈیشن‘ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2005سے لے کر 2020کے بیچ 15سالوں میں چین نے سعوعی عرب، یو اے ای، انڈونیشیا، ملیشیا، نائیجریا، الجیریا، قزاقستان، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، مصر اور ترکی میں کل 421.59ارب ڈالر کی سرمایہ کاری یا معاہدے کئے۔ سعودی عرب، ایران، پاکستان، بنگلہ دیش، ملیشیا اور مصر کے ساتھ مستقبل کے اس کے معاہدہ کو اس میں جوڑ دیا جائے تو یہ تعداد1.3 ٹریلین ڈالر کو بھی پار کرجاتا ہے۔ مطلب یہ کہ چین اب ان مسلم ملکوں کا ’نیا امریکہ‘ بن چکا ہے۔ کورونا کے دورمیں یہ دوستی اور بھی گہری ہوئی ہے۔ اپنا اثر قائم رکھنے کے لئے چین نے شروعات میں مسلم ملکوںکو ویکسین کی 1.5ارب ڈوز مفت میں دیں، لیکن چین کے کردار کو قریب سے جاننے والوں کو پتہ ہے کہ چین مفت میں کچھ بھی نہیں کرتا۔ چین اگر ایک ہاتھ سے کچھ دیتا ہے تو دونوں ہاتھوں سے اسے واپس بھی وصولتا ہے۔ اس بات کو سچ ثابت کرتے ہوئے چین اب سعودی سے تیل کی تجارت امریکی ڈالر کے بجائے یوان میں کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ چینی سکوں کی کھنک کے آگے مسلم ملکوں کی ہنک دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ان کی بولتی ہی بند ہوگئی ہے۔
بہر حال، رپورٹ روکنے کی چین کی تمام کوششوں کے بعد بھی اب جب اس کا کچا چٹھا دنیا کے سامنے آچکا ہے، تو اب اسے سبق سکھانے کی قواعد بھی شروع ہوگئی ہے۔ مسلم ملکوں کو معاشی غلام بناچکے چین کو معاشی چوٹ پہنچانے کے لئے امریکہ سرگرم ہوگیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اشارے دیے ہیں کہ جی7-ملکوںکے ساتھ مل کر اس امکان کو تلاش کیا جارہا ہے کہ کس طرح بندھوا مزدور بناکر اویغور مسلمانوں کے ذریعہ تیار کئے گئے چین کے پروڈکٹ کو تجارت سے الگ کیا جائے۔ آنے والے دنوں میں اس ’معاشی اسٹرائک‘ کا دائرہ اور وسیع کیا جاسکتا ہے۔ کورونا کے دور میں اپنی معاشی دھاک اور عالمی ساکھ، دونوں گنوا چکے چین کے لئے یہ کسی اسٹروک سے کم نہیں ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS