عبد العزیز
قرآن مجید میںایک سورہ ہے جس کا نام المومنون ہے۔ اس کی شروع کی دس آیتوں کے ذریعہ فرد اور معاشرہ کی بہتر طور پر اصلاح ہوسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ سورہ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی اکرم ﷺ پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے۔ جب حضور ﷺ اس سے فارغ ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقینا وہ جنت میں جائے گا۔ پھر آپ ﷺ اس سورہ کی ابتدائی آیات سنائیں ۔ (احمد، ترمذی، نسائی، حاکم)
شروع کی دس آیتوں کا ترجمہ:
’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جوان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔ اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیںگے ۔‘‘
کامیابی اور فلاح کی پہلی خصوصیت یا صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ، اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری سے جھکتے ہیں اللہ کی ہیئت ، عظمت اور جلال سے ان پر ان کے جسم پر مرعوبیت طاری ہوتی ہے۔ اللہ کے سامنے نہ صرف ان کا سر جھکتا ہے بلکہ دل بھی جھکتا ہے۔
دوسری صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لغویات، بیہودہ اور فضول باتوں پر توجہ نہیں دیتے ان کی طرف رخ نہیں کرتے، ان سے کوئی دلچسپی نہیں لیتے ۔ جہاں ایسی باتیں ہورہی ہوں یا ایسے کام ہورہے ہوں اس میں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں اور کہیں ان سے سابقہ پیش آہی جائے تو خوبصورتی سے اپنا پیچھا چھڑا لیتے ہیں۔ سورہ الفرقان آیت نمبر 2 میں اللہ تعالیٰ ایسے نیک بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
’’جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے ، جہاں لغوباتیں ہورہی ہوں، لغو کام ہورہے ہوں وہاں سے بہترطریقے سے گزر جاتے ہیں۔‘‘
’’علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع ، پاکیزہ مزاج ، جوش ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کرسکتا ہے۔ مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جاسکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاںنہیں کرسکتا۔ گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کرسکتا، تفریحی گفتگوؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بناسکتا۔ اس کیلئے تو وہ سوسائٹی ایک مستقل عذاب ہوتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالیوں سے، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَا غِیَہ وہاں تو کوئی لغوبات نہ سنے گا۔‘‘
تیسری اور انتہائی اہم خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ان کو صرف وہیں آزادی دیتے ہیں جہاں اس کا حق ان کو حاصل ہے۔ یعنی بیویوں اور لونڈیوں پر۔ یہ نہیںہوتا کہ شہوت سے اندھے ہو کر بالکل سانڈ بن جائیں اور ہر حرمت پر دست اندازی اپنا حق سمجھ لیں۔ فرمایا کہ اپنے حدود کے اندر یہ چیز مباح ہے۔ اس پر کسی کو ملامت نہیں۔ یعنی کوئی اس کو تقویٰ، دین داری اور خدا ترسی کے منافی نہ سمجھے جیسا کہ راہبانہ تصورات کے تحت عام طور پر سمجھا گیا ہے۔ البتہ وہ لوگ جو اس حد سے آگے بڑھیں گے وہ خدا کے حدود کو توڑنے والے ہیں۔ یہاں صرف ان کے جرم کا ذکر فرمایا، اس کی سزا کا ذکر نہیں فرمایا۔
یہاں اس امر کو یادرکھنا چاہئے کہ موجودہ مغربی اور مغرب زدہ سوسائٹی میں جنسی آزادی پر اگر کوئی قدغن ہے تو صرف اس صورت میں ہے جب جبرو اکراہ کی نوبت آئے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو پھر ہر ایک کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔
چوتھی خصوصیت مومن کی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ تزکیہ کا کام کرنے والے ہوتے ہیں اپنا بھی تزکیہ کرتے ہیں اور دوسروں کی زندگیوں کے تزکیہ کیلئے کوشاں ہوتے ہیں اپنے اندر جو ہر انسانیت کو نشو ونما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں اس کیلئے سعی و جہد کرتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ اعلیٰ میں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَ ذَکَرَ اسْمَ رَ بِّہٖ فَصَلّٰی ’’فلاح پائی اس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کرکے نماز پڑھی۔ اور سورہ شمس میں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا ’’بامراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا ۔‘‘ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکئے پر زور دیتی ہیں اور یہ بجائے خودفعل تزکیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی ، دونوں ہی کے تزکئے پر حاوی ہے۔
پانچویں خصوصیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کامیاب ترین یا فلاح پانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو امانتوں کا خیال رکھتے ہیں اور وعدہ کا پاس رکھتے ہیں۔
’’امانات سے مراد وہ تمام امانتیں بھی ہیں جو ہمارے رب نے قوتوں اور صلاحیتوں ، فرائض اور ذمہ داریوں کی شکل میں یا انعامات و افضال اور اموال و اولاد کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ کی ہوں یا ازروئے حقوق ان کی ادائیگی کی ذمہ ہم پر عائد ہوتی ہو۔ اسی طرح عہد میں وہ تمام عہدو میثاق بھی داخل ہیں جو ہمارے رب نے ہماری فطرت سے عالم غیب میں لئے ہیں یا اپنے نبیوں کے واسطہ سے، اپنی شریعت کی شکل میں، اس دنیا میں لئے ہیں۔ علی ہذا القیاس وہ تمام عہد و میثاق بھی اس میں داخل ہیں جو ہم اپنی فطرت یا انبیاء ؑ کے واسطہ سے اپنے رب سے کئے ہیں یا کسی جماعت یا فرد سے اس دنیا میں کئے ہیں، خواہ وہ قولاً و تحریراً عمل میں آئے ہوں یا ہر شائستہ سوسائٹی میں بغیر کسی تحریر و اقرار کئے سمجھے اور مانے جاتے ہوں۔ فرمایا کہ ہمارے یہ بندے ان تمام امانات اور ان تمام عہود و مواثیق کا پاس و لحاظ رکھنے والے ہیں۔ نہ اپنے رب کے معاملہ میں خائن اور غدار ہیں نہ اس کے بندوں کے ساتھ بے وفائی اور عہد شکنی کرنے والے ہیں۔ ان دو صفتوں کے اندر وہ تمام شرعی و اخلاقی، قانونی اور عرفی ذمہ داریاں آگئیں جن کا احترام ہر شریعت میں مطلوب رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ اپنے خطبوں میں اکثر بیان فرماتے تھے کہ جو امانت کا خیال نہیں رکھتا اس کے پاس کوئی ایمان نہیں اور جو وعدہ کا پاس نہیں رکھتا اس کا کوئی دین نہیں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)۔بخاری اور مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’چار خصلتیں ہیں کہ جس میں چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے۔ جب عہد کرے تو توڑ دے اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی) ساری حدیں توڑ ڈالے۔ ‘‘
چھٹی اور آخری خصوصیات فلاح پانے والے مومن کی یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی رکھوالی کرتے ہیں اس کی نگاہ داشت رکھتے ہیں ، لاپرواہی اور بے خیالی سے کام نہیں لیتے۔ ’’اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نماز ہی سے اہل ایمان کی صفات کا ذکر شروع ہوا تھا اور اسی پر آکر ختم ہوا۔ شروع میں نماز کا ذکر اس کی روح یعنی ’خشوع‘ کے پہلو سے ہوا اور آخر میں اس کی محافظت سے ، اس کے رکھ رکھاؤ اوراس کی دیکھ بھال کے پہلو سے ہوا۔ اس لئے کہ وہ برکات جو نماز کی بیان میں ہوئی ہیں اسی صورت حال میں حاصل ہوتی ہیں جب اس کے اندر خشوع کی روح ہواور اس کی برابر رکھوالی بھی ہوتی رہے۔ یہ باغ جنت کا پودا ہے جو پوری نگہداشت کے بغیر پروان نہیں چڑھتا۔ ذرا غفلت اور ناقدری ہوجائے تو یہ بے ثمر ہو کے رہ جاتا ہے بلکہ اس کے بالکل ہی سوکھ جانے کا ڈر پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر اس کی حقیقی برکات سے بہرہ مند ہونے کی آرزو ہے تو شیاطین کی تاخت سے اس کو بچائیے اور وقت کی پوری پابندی کے ساتھ آنسوؤں سے اس کو سینچتے رہئے۔ تب کچھ اندازہ ہوگا کہ رب نے اس کے اندر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے!!
یہ بات کہ نماز ہی تمام دین کی محافظ ہے قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے ۔یہ دین کی اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ نماز ہی سے تمام نیکیاں نشوونما بھی پاتی ہیں اور اگر نماز ہی چھوڑ دی جائے تو دین و اخلاق کا سارا چمن تاراج ہوکر رہ جائے گا۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جس نے نماز ضائع کردی تو وہ باقی دین کو بدرجۂ اولیٰ ضائع کردے گا۔ ‘‘’’نمازوں لی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقاتِ نماز، آدابِ نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کاخیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھنے بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز اداکرنے کی فکر کرتے ہیں۔ وقت ٹال کر نہیں پڑھتے، نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے عرض کررہا ہے ، نہ اس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے ‘‘۔
آخر میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی بشارت دی ہے جو دس آیتوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیتے ہیں اور ان آیتوں میں درج صفات کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو وہ ان آیتوں کے مطابق خود چلے اور معاشرہ کو چلانے کی کوشش کرے تو معاشرہ یا سماج میں سدھار اور اصلاح یقینا آسکتی ہے اور ایسے معاشرہ کے افراد بلا شبہ اللہ اور رسولؐ کے اعلان کے مطابق نہ صرف جنت کے حقدار ہوں گے بلکہ جنت کے وارث ہوں گے اور میراث میں انہیں فردوس عطا کیا جائے گا۔