کریمانہ موت (Euthanasia) پر سپریم کورٹ کا موقف۔

0

ازقلم: امام علی فلاحی ۔

ایم۔اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔

کریمانہ موت جسے انگریزی زبان میں Euthanasia کہتے ہیں حالیہ دنوں زیر بحث ہے۔
یوتھینسا لفظ یونانی زبان سے ماخوذ ہے جسکے معنی اچھی موت یا کریمانہ موت کے ہیں۔
جسکی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ جب کوئی شخص بیماری کی ایسی حالت میں مبتلاء ہو جائے جسکا ٹھیک ہونا بہت ہی مشکل ہو جائے جیسے کوئی شخص سالوں سے کومہ میں ہو یا سالوں سے بستر پر ہو اس حال میں کہ اس مریض سے نہ خود کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو رہا ہو تو ایسے شخص کے لئے ملک ہندوستان میں 2018 میں ایک ایسا قانون بنایا گیا تھا جسکے تحت وہ خود کی مرضی سے دراں حال کہ وہ ذہنی طور پر درست ہو اپنی زندگی ختم کرنے کی اپیل کرکے جاں بحق ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں عدالت عظمیٰ میں کریمانہ موت (یوتھینسا 2018) میں چند تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔

یاد رہے کہ 2018 میں جب یہ قانون (یوتھینسا) نافذ کیا گیا تھا تو اسکی یہ شرط تھی بیان کی گئی تھی کہ اگر کوئی مریض اس حالت میں مبتلا ہو جائے کہ وہ خود اپنی زندگی سے پریشان ہو جائے یا کسی کام کا نہ رہ جائے یا سالوں سے کومہ میں ہو یا دوائی پر اپنی زندگی بسر کر رہا ہو اس حالت میں کہ نہ خود اسے اسکی زندگی سے کوئی فائدہ حاصل ہو رہا ہو، نہ ہی کوئی دوسرا شخص اس سے مستفید ہو رہا ہو تو اگر اب اس حالت میں وہ مریض خود کی زندگی ختم کرنا چاہتا ہو تو اسکی زندگی یوں ہی ختم نہیں کی جائے گی بلکہ پہلے اس مریض کی بیماری جانچ کی جائے گی جسکے لئے اسی ہسپتال کا جس میں وہ مریض ایڈمٹ ہے اسکے تین ماہرین ڈاکٹروں کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی پھر وہ کمیٹی اس مریض کی بیماری کا جانچ کرکے جب اس بات کا فیصلہ صادر کر دے گی کہ واقعی مریض کی حالت کافی ناساز ہے اور اسکی صحت واپس لوٹ کر نہیں آسکتی ہے تو اب یہ فیصلہ ضلع کلکٹر کو سنایا جائے گا پھر وہ ضلع کلکٹر اپنے حساب سے دوبارہ کسی دوسرے تین ماہرین ڈاکٹروں کی ایک کمیٹی بنائے گا پھر وہ کمیٹی جاکر اس مریض کی حالت دریافت کرے گی، اب اگر وہ کمیٹی بھی اس مریض کی حالت جانچ کر اس بات کا فیصلہ سنادے کہ واقعی اس مریض کی صحت یابی نا ممکن ہے، تو اب وہ ضلع کلکٹر کنٹراکٹ دستخط کرکے اس مریض کو جاں بحق کرنے کا فیصلہ سنادے گا، اسکے بعد اس مریض کو Passive Euthanasia کی تحت جان بحق کر دیا جائے گا ۔

ذہن نشین رہے کہ یوتھینسا (کریمانہ موت) کی دو قسمیں ہیں۔
(١) ایکٹیو یوتھینسا (٢) پیسیو یوتھینسا۔
ایکٹیو یوتھینسا وہ ہے جس میں مریض کو دوائی یا انجیکشن دے کر مار دیا جاتا ہے۔
اور پیسیو یوتھینسا وہ ہے جس میں مریض کو دوائی دے کر نہیں مارا جاتا ہے بلکہ میڈیکل ہیلپ سسٹم اس سے ہٹا لیا جاتا ہے جیسے اگر وہ مریض وینٹیلیٹر پر ہو تو اسکو ہٹا لیا جائے۔
بہر حال 9 مارچ 2018 میں سپریم کورٹ کے ذریعے پیسیو یوتھینسا کو نافذ کیا گیا۔
لیکن ابھی تک پیسیو یوتھینسا میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جیسا کہ مندرجہ بالا ذکر کیا گیا ہے کہ مریض کی جان ختم کرنے سے پہلے دو کمیٹیاں بنائی جاتی تھیں ایک ہسپتال کی جانب سے دوسری ضلع کلکٹر کی جانب کے۔
اسمیں دوسری دشواری یہ ہوتی تھی کہ اسکا کوئی پتہ نہیں رہتا تھا کہ وہ ڈاکٹروں کی کمیٹی اپنا فیصلہ کب سنائی گی کہ مریض کا کیا جائے ؟ آیا اسکی جان ختم کر دی جائے یا اسکا علاج جاری رکھا جائے ۔
ایک دشواری یہ بھی ہوتی تھی کہ جلدی کوئی ڈاکٹر اس کمیٹی میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہوتا تھا جو جاکر اس مریض کی حالت دریافت کرکے اسکے جینے اور مارنے کا فیصلہ سنائے ۔
یہی چند دشواریاں تھیں جو 2018 میں نافذ کی گئی یوتھینسا (کریمانہ موت) میں پائی جاتیں تھی۔
ابھی گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں ایک درخواست کی بنا پر اس معاملے پر سنوائی ہوئی ہے جس میں سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا ہے کہ اب دو کمیٹی بنانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک ہی کمیٹی بنائی جائے گی اور وہ کمیٹی بھی ہسپتال کے تین ڈاکٹروں کی کمیٹی ہوگی نہ کہ ضلع کلکٹر کی بنائی ہوئی کمیٹی۔
دوسری چیز یہ واضح کی ہے کہ اب مجسٹریٹ کے دستخط کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اسے اس خبر سے واقف کر دینا ہی کافی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر ہسپتال ڈاکٹروں کی کمیٹی جلدی نہیں بنا رہا ہے تو مریض کے رشتے دار ہائی کورٹ سے رجوع ہوکر ڈاکٹروں کی کمیٹی تیار کر سکتے ہیں۔

ہندوستان میں یوتھینسا کی تاریخ پر اگر بات کی جائے تو 2018 سے پہلے ہندوستان میں یوتھینسا غیر قانونی تھا۔
1973 میں ایک واقعہ پیش آیا تھا وہ یہ تھا کہ ایک خاتون جسکا نام “ارونا شان باگ* تھا 27 نومبر 1973 میں اسکی عصمت دری ہوئی تھی جسکی وجہ سے وہ کومہ میں چلی گئی تھی اور مسلسل وہ 2015 تک کومہ میں ہی تھی اسی کے پیش نظر ایک صحافی “پنکی ویرانی” نے ایک سپریم کورٹ میں ایک عارضی داخل کی تھی ارونا کے تعلق سے اور Passive Euthanasia کو نافذ کرانے کی کوشش کی تھی لیکن اسکی غرضی پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی آخر کار جب ارونا کا 2015 میں انتقال ہو گیا تو یہ بات بڑے چرچے میں آئی کہ جو شخص سالہا سال کومے میں ہو اور اسکی صحت یابی ناممکن ہو تو ایسے شخص کو کیا زندہ رکھا جانا چاہئے یا عزت کی موت مار ڈالنا چاہتے؟
اسی کے مدنظر 2018 میں سپریم کورٹ نے Passive Euthanasia کو نافذ کیا کہ اگر کوئی شخص حالت صحت میں دراں حال کہ وہ ذہنی طور پر درست ہو اس بات کی نشاندھی کردے یا تحریری طور پر کہہ دے کہ اگر میں اس بیماری میں مبتلاء ہو جاؤں تو مجھے عزت کی موت مار دیا جائے تو اسے پیسیو یوتھینسا کے تحت مار دیا جائے گا۔

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS