سانسیں سینے میں ہی گھٹنے لگیںتو آلودہ فضا کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا۔ ایسی نوبت اس لیے آتی ہے کہ کئی لوگ فضائی آلودگی کو ہلکے میں لیتے ہیں۔ وہ پرب تہوار کے موقع پر پٹاخے چھوڑنے سے باز نہیں آتے، یہ نہیں سمجھتے کہ اسی فضا میں انہیں اور ان کے اپنوں کو بھی سانسیں لینی ہیں۔ گزشتہ دو ہفتے میں دہلی اور اطراف کے علاقوں کی فضا اتنی آلودہ ہوگئی ہے کہ گھٹن سی ہونے لگی ہے۔ اسی لیے آج عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑا کہ آلودگی کی بڑھی ہوئی سطح کو دیکھتے ہوئے مرکز اور دہلی حکومت دارالحکومت میں لاک ڈاؤن پر غور کریں۔ چیف جسٹس آف انڈیااین وی رمن کی سربراہی والی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے کہا کہ دہلی کی ایئر کوالٹی ’سنگین‘ زمرے میں ہے اوراگلے دو، تین دنوں میں یہ مزید خراب ہوگی، اس لیے مرکز ایمرجنسی فیصلے لے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے مرکز سے کہا، ’آپ کا ایسا خیال ہے کہ پوری آلودگی کے لیے کسان ذمہ دار ہیں۔ آپ نے آخر پٹاخوں اور گاڑیوں کی آلودگی پر غور کیوں نہیں کیا؟‘ تو جسٹس سوریہ کانت نے پوچھا، ’پرالی کے لیے استعمال کی جانے والی مشین کی قیمت کیا ہے۔ پرالی اورکچرے کے انتظام کے لیے مشینیں اتنی مہنگی ہیں کہ کسان انہیں خرید نہیں سکتے۔ میں کسان ہوں، سی جے آئی بھی کسان ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘ عدالت نے یہ بات بھی کہی کہ کسانوں کو قصور وار ٹھہرانے کے بجائے مرکزی حکومت اور دہلی حکومت باہم مل کر کام کریں۔ اس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ حکومتیں بلیم گیم سے بچیں اور فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے جو کر سکتی ہیں، کریں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ’ ہمیں یہ بتائیے کہ ہم اے کیو آئی(ایئر کوالٹی انڈیکس) کو 500 سے کم سے کم 200 پوائنٹس تک کیسے کر سکتے ہیں؟ کچھ فوری اقدامات کریں۔ کیا آپ دو دنوں کے لاک ڈاؤن یا کچھ اور کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ کیسے لوگ جی سکتے ہیں؟ ہم طویل مدتی حل کے بارے میں بعد میں غور کریں گے۔‘
فضائی آلودگی میں ٹرانسپورٹ کی بڑی حصہ داری ہوتی ہے، اس لیے لاک ڈاؤن یا لاک ڈاؤن جیسی صورتحال پیدا کرنے سے فضائی آلودگی پر فرق پڑے گا لیکن یہ مسئلے کا وقتی حل ہوگا، دہلی کو فضائی آلودگی پر طویل مدتی منصوبہ سازی کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ عام دنوں میں بھی دہلی کی فضا کوئی زیادہ شفاف نہیں رہتی۔ 2014 میں ڈبلیو ایچ او نے دنیا کے 1,650 شہروں میں سے دہلی کی ایئر کوالٹی کو نہایت ہی ناقص بتایا تھا۔ اس کے باوجود دہلی کی فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں آج تک زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ ایک برس پہلے حالات اتنے خراب ہوگئے تھے کہ 25 نومبر، 2019 کو چیف جسٹس آف انڈیا نے دہلی کو ’نرک(جہنم) سے بدتر‘ قرار دیا تھا۔ 2020 میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن رہا، اس کے بعد بھی لوگوں کا باہر نکلنا کم ہوا، اس لیے پچھلے سال ان دنوں فضا اتنی آلودہ نہیں ہوئی تھی جتنی آج ہے۔ فضائی آلودگی کی صورتحال دہلی میں ہی خطرناک نہیں، دیگر شہروں میں بھی ہے۔ فضائی آلودگی پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ فضائی آلودگی کی اعلیٰ سطح کے لحاظ سے دنیا کے 20 میں سے 13 شہر وطن عزیز ہندوستان میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فضائی آلودگی کے معاملہ میں عام لوگ زیادہ بیدار کیوں نہیں ہیں اور حکومتیں اس پر مستقل کنٹرول کے لیے مہم کیوں نہیں چھیڑتیں جبکہ وطن عزیز میں اموات کی یہ پانچویں بڑی وجہ ہے، ہر سال 20 لاکھ لوگوں کو اس کی وجہ سے جانیں گنوانی پڑتی ہیں؟ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان میں دمہ اور سانس کی بیماریوں کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
ہمارے ملک میں فضا مختلف وجوہات سے آلودہ ہوتی ہے۔ فضا کو آلودہ کرنے میں 51 فیصد حصہ صنعتی آلودگی کا ہوتا ہے، 27 فیصد گاڑیوں کا، 17 فیصد اناج کی باقیات جلانے کا اور 5 فیصد حصہ ہی دیگر چیزوں کا ہوتا ہے۔ کجریوال حکومت نے 15نومبر سے ایک ہفتے کے لیے اسکولوں کو بند کرنے، سرکاری ملازمین کے ورک فرام ہوم اور 17 نومبر تک دہلی میں تعمیرات سے وابستہ سرگرمیوں پر روک لگانے کا اعلان کرکے یہ بتا دیا ہے کہ دہلی سرکار فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے تئیں سنجیدہ ہے۔ اب مرکزی حکومت اگر پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کی حکومتوں سے کہہ کر پرالی جلانے پر روک لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو دہلی میں فضائی آلودگی بڑی حد تک کم ہو جائے گی مگر یہ وقتی حل ہے، فضائی آلودگی کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔
[email protected]
فضائی آلودگی پر عدالت عظمیٰ کا موقف صحیح
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS