خواجہ عبدالمنتقم
یکساں سول کوڈ سے متعلق پٹیشن کی سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار اس کا کوئی فیصلہ نہیں بلکہ چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی دو رکنی بینچ کی محض ناقابل پابندی ضمنی رائے (obiter dictum) ہے اور وہ بھی اس پٹیشن میں جسے سائل نے واپس لے لیا اور عدالت نے اسے واپس لینے کی بنیاد پر خارج بھی کر دیا لیکن اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی اظہار کردہ زبانی ضمنی رائے سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ لا کمیشن کی یکساں سول کوڈ کے خلاف ر پورٹ کی بنیاد بھی غیر مستحکم ہے۔ اس نے اس کے لیے انگریزی لفظ shaky کا استعمال کیا ہے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی توجہ ریاست مہاراشٹر بنام نراسوا اپپا مالی والے معاملے(اے آئی آر 1952بمبئی 84) کی جانب مبذول کرائی گئی اور یہ کہا گیا کہ لا کمیشن نے اپنی یہ رائے کہ یکساں سول کوڈ کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی ایسا کرنا مناسب ہے اس فیصلہ کی بنیاد پر ہی قائم کی تھی۔ اس معاملہ میں یہ فیصلہ دیا گیا تھا کہ پرسنل لا یعنی عائلی قوانین آئین کی دفعہ 13 کے معانی میں قانون کے زمرہ میں ہی نہیں آتے۔اس بارے میں چیف جسٹس نے کہا کہ متذکرہ بالا والے معاملہ میں اس اصطلاح کی جو تعبیر بیان کی گئی تھی وہ بات اب پرانی ہو چکی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ چونکہ سپریم کورٹ اس فیصلہ کے بارے میں دو مرتبہ شبہ کا اظہار کرچکا ہے اس پر دوبارہ غور تو کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اس ضمن میں حکم تاکیدی(mandamus )جاری نہیں کرسکتے،ہمارے اختیار سماعت کی بھی اپنی کچھ حدود ہیں۔ اب رہی بات یکساں سو ل کوڈ لانے کی تو اس کے بارے میں ہم اپنے کتنے ہی مضامین میں یہ بات کہہ چکے ہیں اور پھر ایک بار کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی متنوع صورت حال میں یکساں سول کوڈ لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
بھارت کے آئین کی دفعہ 44میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ مملکت اس بات کی کوشش کرے گی کہ ہندوستان میں سبھی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو مگر یکساں سول کوڈ کی نوعیت کیا ہوگی، اس کے بارے میں ابھی تک ہمارا آئین بالکل خاموش ہے۔ البتہ ہمارے قانون ساز ادارے اس اصول سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ ایساقانون نہ بنائیں جس سے کسی کے جذبات کسی بھی طرح مجروح ہوں اور اگر بنائیں بھی تو تمام stake holders سے با معنی گفتگو کے بعد اور کسی بھی طرح جلد بازی سے کام نہ لیں۔
سپریم کورٹ دیگر معاملوں کے ساتھ ساتھ پنالال بنسی لال بنام ریاست آندھراپردیش (1996) جے ایس سی سی498)والے معاملے میں یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ کسی قانون کے سب پر اطلاق سے متعلق فیصلہ ایک دم نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ کام بہت دھیرے دھیرے کیاجاناچاہیے اور صرف تبھی کیا جاناچاہیے جب اس کی ضرورت نہایت شدید ہواور اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں اور ملک کا اتحاد و سالمیت قائم رہے۔ سجن سنگھ بنام ریاست راجستھان والے معاملے (اے آئی آر 1965 ایس سی 845)اور ریاست پنجاب بنام بلدیو سنگھ والے معاملے (1999) 6ایس سی سی 172 میں سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں اس رائے کا اظہار بھی کرچکا ہے کہ فیصلہ پر قائم رہنے کے اصول(Stare Decisis)کے مطابق عدالتوں کو فیصلوں پر قائم رہنا چاہیے اور ان کوالٹ پلٹ نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ کے جج اپنے پرانے فیصلوں پر نظر ثانی نہ کر سکیں۔
یکساں سول کوڈ کایہ مسئلہ کسی ایک فرقہ کا نہیں، اس سے سبھی کے لیے دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں اور کوئی بھی حکومت ہو عام نوعیت کے فیصلے لینے سے پہلے اس کے تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر غور کرتی ہے اور کبھی بھی جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں لیتی۔ موجودہ حکومت بھی ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد ہی فیصلہ لے گی۔ یکساں سول کوڈ کی بات تو سب کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ قیاس بھی کرلیتے ہیں کہ مسلمانان ہند اس کی مخالفت کریںگے مگر کوئی یہ سمجھنے یا بتانے کے لیے تیار نہیں کہ مجوزہ سول کوڈ کی نوعیت کیا ہوگی؟ ذرا ان سوالات پر بھی غور کیجیے۔
-1 کیا ہندوؤں کے دونوں مکاتب فکر یعنی Mitakshara (میتاکشر) اور Dayabhaga (دائے بھاگ) پر اور مسلمانوں کے ہرمکتبہ فکر اور مسلک پرہر عائلی معاملے میں یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-2 کیا عام ہندوؤں اور پہاڑی و قبائلی ہندوؤں پر،جو Polyandry (بیک وقت کئی خاوند رکھنا) میں یقین رکھتے ہیں،یکساں سول کوڈ کا اطلاق ممکن ہے؟
-3 اگر کسی ایک مذہب کی اچھی باتوں کو یکساں سول کوڈ میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا دوسرے مذاہب کے لوگ انہیں قبول کریںگے؟
-4 کیا وہ قوم جو بابری مسجد-جنم بھومی مسئلہ پر ایک نہ ہوسکی تو وہ اتنے اہم ایشو پر ایک ہوسکتی ہے؟
-5 کیا سول کوڈ تمام مذاہب کی بنیادی باتوں اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کو نظرانداز کرکے نافذ کیا جاسکتا ہے؟
لا کمیشن کے سابق چیئرمین جسٹس چوہان نے بھی مسلمانوں کے ایک وفد کو یہ یقین دلایا تھا کہ حکومت یا سپریم کورٹ کا مسلمانوں کے شرعی قانون میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں۔ہندوستان جیسے مذہبی اعتبار سے حساس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور ان میں بھی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یکساں سول کوڈ کے اطلاق کی تو بات کیا، اسے وضع کرنا بھی آسان کام نہیں اور غالباً اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والے دونوں ہی اس کی محض قیاسی شکل کی بنیاد پر قیاس آرائی کرتے رہتے ہیں۔ اگر یکساں سول کوڈ وضع کیا بھی جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسلمانوں پر ہندو کوڈ تھوپ دیا جائے گا۔ ہندوستان میں اگر ایک طرف مسلمانوں کوایک سے زائد بیویاں رکھنے(Polygamy ) کی آزادی ہے تو دوسری جانب پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں ہندوؤں کو بیک وقت کئی خاوند رکھنے (Polyandry) کی۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کثیر زوجگی کی ابتدا مسلمانوں نے کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے تعداد ازواج کو محدود کیا ورنہ اس سے قبل نہ صرف عرب بلکہ غیر عرب جتنی چاہے بیویاں رکھ سکتے تھے۔کیا یہودی اور حضرت موسیٰؑ کے پیروکاروں نے ایسا نہیں کیا؟ کیا قدیم عیسائی چرچ نے کبھی اس کی مخالفت کی؟ کیاAnabatism(تجدید اصطباغ)کے حامیوں نے پالی گیمی کو منظوری نہیں دی؟ کیا افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ کے Mormons میں پالی گیمی رائج نہیں تھی؟ کیا 1955 کے ہندو میرج ایکٹ کے نفاذ سے قبل ہمارے ہندو بھائی ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتے تھے؟آج بھی آپ کو شاذونادر ہی مسلمانوں میں ایسے لوگ ملیںگے جن کی ایک سے زیادہ اور خاص کر 4بیویاں ہوں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ایسا سروے کرائے جس سے صورت حال واضح ہو جائے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]