مرکز کی مودی حکومت نے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے جس الیکٹورل بانڈ اسکیم کو شروع کیا تھا، اسے آج ملک کے سپریم کورٹ نے غیرآئینی ٹھہرادیا ہے اور کہاہے کہ اسے نہ صرف منسوخ کرنا پڑے گا بلکہ وہ بانڈس جو ابھی کیش نہیں کرائے گئے ہیں، ان کی رقم خریدار کے کھاتے میں واپس کرنی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ بینک فوری طور پر انتخابی بانڈس کا اجرا بند کریں۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا( ایس بی آئی) سیاسی جماعتوں کی طرف سے لیے گئے انتخابی بانڈس کی تفصیلات جمع کرائے گا۔ایس بی آئی یہ تفصیلات الیکشن کمیشن آف انڈیا کو پیش کرے گا اور الیکشن کمیشن ان تفصیلات کو ویب سائٹ پر شائع کرے گا۔ ایس بی آئی کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس اسکیم کیلئے چندہ دینے والوں کے ناموں کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔ان سارے کاموں کیلئے عدالت نے31مارچ 2024تک کے وقت کا تعین بھی کردیا ہے۔
عدالت نے یہ احکامات الیکٹورل بانڈ اسکیم کے قانونی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں دیے ہیں۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنچ نے گزشتہ سال 2 نومبر کو اس کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ مرکزی حکومت نے 2018 میں بانڈ اسکیم شروع کی تھی۔ اسے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ میں شفافیت لانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔تاہم کانگریس لیڈر جیا ٹھاکر، مارکسی کمیونسٹ پارٹی اور این جی او ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی۔ سماعت مکمل کرنے کے بعد چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے گزشتہ سال 2 نومبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس آئینی بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوائی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراشامل تھے۔بنچ نے کہا کہ کمپنیوں کی طرف سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ خالصتاً تجارتی لین دین ہے۔ سیکشن 182کمپنیز ایکٹ میں ترمیم کمپنیوں اور افراد کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کیلئے واضح طور پر من مانی ہے۔نیز یہ اسکیم آئین کی دفعہ 19(1)(a) کے تحت معلومات کے حق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
سال2017 میں این ڈی اے حکومت نے انتخابی عطیات کے لیے الیکٹورل بانڈس متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا اور اس اسکیم کو 2018 میں نافذ بھی کیا گیا تھا۔ اس کے تحت عام آدمی سے لے کر بڑے صنعت کار اور کاروباری گھرانے یا کمپنیاں اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے انتخابی بانڈ خرید سکتی ہیں۔ یہ رقم کی شکل میں ایک قسم کا عہد ہے جو آپ کسی سیاسی جماعت کو عطیہ کے طور پر دیتے ہیں۔ اس سے قبل کسی بھی فرد یا صنعتی گھرانے کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو جو بھی چندہ دیا جاتا تھا، اسے ظاہر کرنا پڑتا تھا اور سیاسی جماعتوں کو بھی یہ اعلان کرنا ہوتا تھا کہ انہوں نے کس سے اور کتنا عطیہ وصول کیا ہے۔ لیکن مودی حکومت کی انتخابی بانڈ اسکیم میں بانڈ کے خریدار کی شناخت جاری نہیں کی گئی۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس سے انتخابی عطیات میں شفافیت کو فروغ ملے گا اور لوگ سیاسی جماعتوں کے دباؤ سے آزاد رہیں گے۔
بظاہر شفافیت کی یہ دلیل بڑی روشن ہے لیکن آج ہم سیاست میں ایک ایسے دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں جب لوگوں کی جاسوسی کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب، کہاں اور کس کے موبائل یا کمپیوٹر کو کسی سافٹ ویئر کے ذریعہ مانیٹر کیا جائے گا۔ ایک غیر واضح چپ کے ذریعہ کسی شخص کے بینک اکاؤنٹ سے لے کر اس کے شناختی کارڈ تک اور اس کی پسند، ناپسند، آمد و رفت، سیاسی وسماجی رجحانات کا لمحوں میں پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ایسے میں یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہے کہ کس شخص یا ادارے یا کارپوریٹ ہاؤس نے انتخابی بانڈایس بی آئی کی کس برانچ سے کتنے میں خریدے اور کس سیاسی جماعت نے اسے کیش کیا۔اس لیے یہ دلیل بے معنی ہوجاتی ہے کہ الیکٹورل بانڈس شفافیت لائیں گے۔اس کے برخلاف بلکہ یہ خوف ہمیشہ رہے گا کہ حکمراں جماعت لوگوں پر الیکٹورل بانڈس خریدنے کیلئے دباؤ ڈالے گی تاکہ اس کا خزانہ بھر جائے۔ اب تک کا ریکارڈ بھی یہی بتارہاہے۔ اس اسکیم کے ذریعہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی اب تک52ہزار کروڑ روپے وصول کرنے و الی پہلی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرکے حکومت کی منمانی اور آئین کو اپنی مرضی کا رخ دینے کے عمل پر روک لگائی ہے۔آنے والے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر عدالت کے اس فیصلہ سے دور رس نتائج بھی متوقع ہیں۔
[email protected]
الیکٹورل بانڈس پرسپریم کورٹ کا فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS