پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
حق شناس مسلم یا غیر مسلم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اسلام دین حق اور دین رحمت ہے ایک ایسا نور ِحق ہے جو باطل کے ظلمات کو ختم کرنے کیلئے آیا ہے۔ اللہ اپنے دین کو زور زبردستی نہیں پھیلانا چاہتا ہے اور نہ ہی زور زبردستی نافذالعمل بنانا پسند کرتا ہے بلکہ حق کے غلبہ کی ذمہ داری اہل حق پر دے رکھی ہے کہ وہ کس قدر اپنی خانفشانیوں اور قربانیوں سے حق کو غالب کرتے ہیں۔ سورہ صف قرآن مجید کی 61ویں سورہ ہے، اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہا ہے کہ اہل باطل اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور رسول اکرمؐ کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ثابت ہو‘‘۔
سورہ صف کے موضوع اور مضمون پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس کا موضوع ہے مسلمانوں کو ایمان میں اخلاص اختیار کرنے اور اللہ کی راہ میں جان لڑانے پر ابھارنا۔ اس میں ضغیف الایمان مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے، اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان کا جھوٹا دعویٰ کرکے اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔ اور ان کو بھی جو مخلص تھے۔ بعض آیات کا خطاب پہلے دونوں گروہوں سے ہے، بعض میں صرف منافقین مخاطب ہیں، اور بعض کا روئے سخن صرف مخلصین کی طرف ہے۔ انداز کلام سے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں کون مخاطب ہے۔
آغاز میں تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں۔
پھر آیت 5 سے 7 تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیاہے کہ اپنے رسولؐ اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہیں ہونی چاہئے جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔ حضرت موسیٰؑ کو وہ خدا کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے، اور حضرت عیسیٰؑ سے کھلی کھلی نشایاں دیکھ لینے کے باوجود ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچا ہی ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہوگئی۔ یہ کوئی ایسی قابل رشک حالت نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوم اس میں مبتلا ہونے کی تمنا کرے۔
پھر آیت 8۔9میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نورکو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں، یہ پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو، رسول بر حق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آکر رہے گا۔
اس کے بعد آیات 10۔13 میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ آخرت میں اس کا ثمرہ خدا کے عذاب سے نجات ، گناہوں کی مغفرت اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جنت کا حصول ہے اور دنیا میں اس کا انعام خدا کی تائید و نصرت اور فتح و ظفر ہے۔
آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اسی طرح وہ بھی ’’انصار اللہ‘‘ بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائید حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی۔
سورہ صف کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اللہ کی تسبیح کی ہے ہر ا س چیز نے جو آسمانوں اور زمین ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے‘‘۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے مختصراً اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اس خطبہ کی مختصر تمہید ہے۔ تشریح کیلئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ الحدید، حاشیہ 1-2۔ کلام کا آغاز اس تمہید سے اس لئے کیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ فرمایا جانے والا ہے اس کو سننے یا پڑھنے سے پہلے آدمی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز اور اس سے بالا تر ہے کہ اس کی خدائی کا چلنا کسی کے ایمان اور کسی کی مدد اور قربانیوں پر موقوف ہو۔ وہ اگر ایمان لانے والوں کو ایمان میں خلوص اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ صداقت کا بول بالا کرنے کیلئے جان و مال سے جہاد کرو، تو یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی بھلے کیلئے ہے۔ ورنہ اس کے ارادے اس کے اپنے ہی زور اور اس کی اپنی ہی تدبیر سے پورے ہو کر رہتے ہیں، خواہ کوئی بندہ ان کی تکمیل میں ذرہ برابر بھی سعی نہ کرے، بلکہ ساری دنیا مل کر ان کی مزاحمت پر تل جائے۔
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب مذکورہ آیت کی تفسیر کچھ اس طرح کی تفصیل سے بیان کرتے ہیں:۔
بعد کی آیات میں جو کچھ فرمایا جارہا ہے یہ اس کی مختصر تمہید ہے۔ اس آیت کے مضمون کے دو پہلو ہیں اور وہ دونوں ہی اس آیت کا مقصود معلوم ہوتے ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ اس آیت کے بعد جو کچھ فرمایا جارہا ہے اس کا بنیادی مضمون اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد، اعلائے کلمۃ الحق کیلئے کاوشیں اور اس راستے پر سب کچھ قربان کر دینا ہے۔ جب کسی کی خاطر چھوٹی یا بڑی قربانی کی ترغیب دی جاتی ہے تو یہ خیال دل میں آئے بغیر نہیں رہتا کہ میں جس کیلئے سب کچھ قربان کر رہا ہوں کیا وہ صلہ دینے پر قدرت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ ایسا تو نہیں کہ وہ ایک بے بس اور بے کس ذات ہے جس سے کسی چیز کے ملنے کی توقع نہیں ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس ذات خداوندی کے راستے میں جہاد کی ترغیب دی جاری ہے وہ ذات اتنی عظیم ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہے۔ اور وہ اتنی طاقتور ہے کہ ہر چیز پر اس کا غلبہ ہے۔ اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ کیا ایسی ذات کی خاطر قربانی نہ دینا اور اس کی خوشنودی کے حصول کی کوشش نہ کرنا نقصان کا سودا نہیں ہے۔ افسوس ہے ان لوگوں پر کہ جو ایسی ذات کو خوش رکھ کے کچھ حاصل کرنے کی بجائے محرومیوں کو اپنا مقدر بنالیں۔
دوسرا پہلو اس آیت کے مضمون کا یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں سرگرم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات ساری کائنات پر غالب اور کائنات کے نظم و تدبیر میں حکمتوں کی مالک ہے۔ کوئی شخص اگر ایسی ذات کی خوشنودی کے حصول کیلئے جہاد ہی نہیں کرتا اور اپنا مال اور اپنی جان کا نذرانہ اس کے حضور پیش نہیں کرتا، تو ایسی عظیم ذات کوکیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ بے نیاز ہی نہیں بلکہ سب اس کے نیاز مند اور محتاج ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے سلسلے میں کہیں فعل ماضی استعمال ہوا ہے جیسے اس سورہ میں، اور کہیں فعل مضارع جیسے آنے والی سورہ میں۔ اس سے در اصل یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو کائنات کے ہر دور میں واقع ہوتی رہی ہے۔ اور اس کا وقوع ایک ایسا سیل رواں ہے جس کی روانی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ اور ایک ایسی لازمی حقیقت ہے جس کے انقطاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو ایسی ذات کی خوشنودی حاصل نہ کرنا اور اس کے راستے میں کسی طرح کی قربانی سے دریغ کرنا کتنی بڑی محرومی کا باعث ہوسکتا ہے۔
آیت کے آخر میں ’العزیز الحکیم‘ دو صفات کو بغیر حرف عطف کے اکٹھا لایا گیا ہے۔ اس سے اشارہ شاید اس بات کی طرف ہے کہ یہ دونوں صفتیں بیک وقت موصوف میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ بیک وقت ہر چیز پر غالب بھی ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت و مصلحت بھی ہے۔ اس میں شاید اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے اور پھر تم سے اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے نصرت اور مدد کا تقاضا کیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت کامحتاج ہے۔ اور اس کے دین کی سر بلندی اور اس کا نفوذ و اشاعت شاید تمہاری کاوشوں کی مرہون منت ہے۔ ایسا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حق و باطل کی کشمکش کے حوالے سے جو فیصلہ کئے ہیں اور جو قانون تجویز کیا ہے اس میں وہ حق کو کبھی زبردستی غالب نہیں کرتا۔ اور کبھی شر اور باطل کو طاقت سے سرنگوں نہیں کرتا۔ بلکہ یہ کام اس نے اہل حق پر ڈال رکھا ہے کہ وہ اپنی کاوشوں اور قربانیوں سے حق کے غلبے کیلئے راستہ صاف کرے اور باطل کی قوتوں سے لڑ کر انہیں سرنگوں کرے۔ اس راستے میں کام آجانے والوں کو بیش بہا انعامات سے نوازتا ہے۔ اور اس راستے پر چلنے والوں کو اپنی تائید و نصرت سے گراں بار کرتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS