سپریم کورٹ کا عہد آفریں فیصلہ

0

خواجہ عبدالمنتقم

کسی بھی ملک کے آئین یا دستور یا قانون اساسی میں بنیادی حقوق کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو جسمانی نظام میں شہ رگ کی۔بنیادی حقوق کوہمارے آئین کے جز3 میںدفعات12تا35کی شکل میں شامل کیا گیا ہے۔ کوئی ایسا شخص جس کے بنیادی حقوق یا حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ آئین کی دفعہ32یا دفعہ 226کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں رٹ داخل کرسکتا ہے لیکن حال ہی میں عدالت نے اپنے ایک فیصلہ میں یہ بات کہی ہے کہ ایسا دعویٰ صرف وہ شخص ہی کر سکتا ہے جو خود قانون کا پابند ہواور جو قانونی process کا احترام کرتا ہو اور خود کو اس کا تابع مانتا ہو۔ویسے بھی ہمیشہ یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ہر مقدمہ باز کو عدالت سے نیک نیتی اور ایمانداری کے ساتھ یعنی with clean hands رجوع کرنا چاہیے اور وکلا کو بھی اپنے موکلوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ایسا شخص جو ماقبل ضمانت (anticipatory bail)کی استدعا کے وقت مفرور تھا اور خلاف قانون عمل کا مرتکب تھا، عدالت کا کہنا ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ کسی طرح کی رعایت نہیں کی جا سکتی اور اسے ضابطہ فوجداری کی دفعہ438 ، جو کسی بھی شخص کو ایسی ضمانت حاصل کرنے کا حق دیتی ہے، کا فائدہ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگرچہ یہ فیصلہ ایک ذاتی معاملہ میں دیاگیا ہے اور ایسا فیصلہ(judgment in personam) اس شخص کو ہی لاگو ہوتا ہے جس نے عدلیہ سے رجوع کیا ہے لیکن یہ فیصلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ایسا فیصلہ ہے جسے judgment in remکہا جاتا ہے اور جو سب پر لاگو ہوتا ہے۔آئیے اب بنیادی حقوق کے تاریخی پس منظر، ان کی نوعیت اور اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
اٹھارہویں صدی میں سیاسی شعور میں بیداری پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس دور کے فلسفیوں، دانشوروں اورقانون دانوں کے انداز فکر میں بھی تبدیلی آئی اور انہوں نے اپنی روایتی سوچ سے ہٹ کر مختلف قانونی تصورات کو بھی دنیا کے بدلتے ہوئے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کے مدنظر ایک نئی شکل دینے کا بیڑا اٹھایا۔ 1689میں انگلینڈ میں اور 1789 میں فرانس میں منظور کیے جانے والے اعلامیوں اور 1791میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین میں کی جانے والی ترامیم کے نتیجے میں عوام کے حقوق کی طرف زیادہ توجہ دی جانے لگی اور اس سوچ میں کہ عوام کے حقوق نہ صرف ان کے اپنے ساتھیوں کے حقوق ہیں اور ان کا تحفظ صرف اسی لیے ضروری ہے یہ تبدیلی بھی رونما ہوئی کہ مملکت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ ان حقوق کو تحفظ فراہم کرے۔ اب یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ ارباب حکومت یا سرکاری عملہ عوام کی خدمت کے لیے ہے نہ کہ ان پر مالکانہ حقوق جتانے کے لیے۔ اگر ان کے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں کوئی لغزش ہوتی ہے تو وہ عوام کو جوابدہ ہیں۔
بنیادی حقوق ایک فرد کے وہ حقوق ہیں جو کسی بھی جمہوری یا مہذب مملکت میں عوام کو حاصل ہوتے ہیں۔ دراصل ان حقوق کی حیثیت آفاقی ہے اور یہ حقوق تمام انسانوں کو ،خواہ وہ دنیاکے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں، ان کا کوئی بھی رنگ روپ، مذہب ، عقیدہ، جنس یا حیثیت ہو اور وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں، حاصل ہیں اور اگر حاصل نہیں ہیں تو حاصل ہونے چاہئیں۔ ان حقوق میں عام طور پر حق مساوات، جس میں مساوات مردوزن بھی شامل ہے، حق انجمن سازی، حق نمائندگی، حق داد رسی اور حقوق وقار و عظمت، حقوق خلوت وغیرہ شامل ہیں۔
کون سا ملک کتنا مہذب اور قانونی اعتبار سے کتنا ترقی یافتہ ہے، اس بات کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں عوام کو کس حد تک بنیادی حقوق حاصل ہیں اور یہ کہ حقیقتاً ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوتاہے۔ انسانی حقوق عطا کرنے کی غرض اور واحد غرض یہی ہوتی ہے کہ عوام کے تمام شہری، سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی و مذہبی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ اگر کسی بھی ملک کے دستور میں وہاں کے عوام کو ان حقوق کی مکمل ضمانت نہیں دی جاتی تو ہمیشہ یہ خدشہ بنا رہتا ہے اور عوام کو یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ ارباب حکومت یا وہ لوگ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے، کب ان کے حقوق کو پامال کردیں اور ان کی آزادی خطرے میں پڑجائے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی کا مطلب، اس کا مقصد یا اس کی غرض بے لگام آزادی (Unfettered Liberty)نہیں ہوتی۔ آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ جو چاہیں کرسکیں۔ ایسی آزادی تو صرف جنگل راج میں ہی حاصل ہوسکتی ہے ورنہ آزادی ہمیشہ مختلف پابندیوں یا تحدیدات کے ساتھ عطا کی جانے والی آزادی ہوتی ہے۔ دساتیر عالم ،جن میں ایسے ممالک کے دساتیر بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمیشہ بنیادی حقوق یا انسانی حقوق کی وکالت یا حمایت کی ہے اور جن کے دساتیر میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ بنیادی حقوق ناقابل تنسیخ ہیں، یہ حقوق مختلف پابندیوں اور مختلف تحدیدات کے تابع عطا کیے گئے ہیں۔ اگرچہ عدالت کی مختلف نظیروں کے مطابق اب ان میں سے کچھ حقوق کو کسی حد تک حقوق مطلق(Absolute Rights)کا درجہ دیا جاچکا ہے لیکن ا س کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آزادی کا مقصد لاقانونیت ہے کیونکہ ان حقوق کا استعمال پابندیوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ اب رہا سوال یہ کہ مناسب پابندیاں کہاں اور کون سی ہیں، اس کی وضاحت وقتاً فوقتاًہماری عدالتیں کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے آئین میں بھی یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ ان حقوق کا استعمال ا س طرح کیا جانا چاہیے کہ اس سے امن عامہ اور اخلاق عامہ پر منفی اثر نہ پڑے۔
بنیادی حقوق اس خصوصیت کے حامل ہیں کہ اگر ان میں سے کسی بھی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے یا کسی بھی شخص کے ساتھ ایسی زیادتی ہوتی ہے جو حق تلفی کے زمرے میں آئے تو متضرر شخص یا وہ شخص جس کا حق مارا گیا ہے یا تلف ہوا ہے انصاف رسانی کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ دریں صورت آئین اور اس کی بالا دستی کا احترام ہم سب پر لازم ہے کیونکہ جمہوریت،ملک کی ترقی و فروغ اور انسانی حقوق کا احترام و بنیادی آزادیاں ایک دوسرے پر اس طرح منحصر اور ایک دوسرے کے سا تھ وابستہ و پیوستہ ہیں کہ ایک پر دوسرے کے بغیرعمل نہیں کیا جا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ بنیادی حقوق کوJusticiable Rights یعنی قابل چارہ جوئی حقوق کہا گیا ہے جب کہ بھارت کے آئین میں دیے گئے ہدایتی اصولوں (directive principles)کو یہ درجہ حاصل نہیںہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS