بین مذاہب شادیوں کی نگرانی

0

ہندوستان کے کثیر جہتی معاشرہ اور گنگاجمنی تہذیب کو آج ہر طرف سے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک طرف بے لگام انسانی خواہشات نے رشتوں کی حرمت کو پامال کرکے معاشرہ میں اتھل پتھل مچا رکھی ہے۔لوگوں میں ایک دوسرے کیلئے محبت، میل ملاپ، بھائی چارہ، ہم آہنگی، خیرسگالی کے جذبات ماند پڑرہے ہیں تو دوسری جانب تقسیم کی سیاست نے دو فرقوں کے درمیان بغض و عناد اور منافرت کی چٹانی دیوار کھڑی کردی ہے۔ حکومت بھی ایسی ہی پالیسیاں لارہی ہے جو بھائی چارہ اور اتحاد کو فروغ دینے میں ناکام ہیں۔ چند یوم قبل مہاراشٹر کی حکومت نے بین مذہبی اور بین ذات(انٹر فیتھ اینڈ انٹر کاسٹ) شادیوں کی نگرانی کیلئے ’ انٹرکاسٹ/انٹر فیتھ میرج-فیملی کوآرڈی نیشن کمیٹی(ریاستی سطح)‘ کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔اس کا مقصد یہ بتایاگیا تھا کہ یہ کمیٹی ریاستی سطح پر دوسری ذات یا دوسرے مذہب میں شادیوں کے بعد لڑکیوں کے معاملات کی نگرانی کرے گی۔
لیکن اب پتہ نہیںراتوں رات کون سا انقلاب آگیا ہے کہ نہ صرف اس کمیٹی کا نام بدل دیاگیا ہے بلکہ اس کی تشکیل کے مقاصد میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔نئے اعلان کے مطابق اب کمیٹی کا نام ’ انٹر فیتھ میرج-فیملی کوآرڈی نیشن کمیٹی (ریاستی سطح)‘ ہوگا اور یہ بین ذات شادیوں کے بجائے اب صرف بین المذاہب شادیوں پر ہی کڑی نظر رکھے گی۔ ریاست میں اطفال و خواتین کے محکمہ کے وزیر منگل پربھات لوڑھا کی قیادت میں قائم یہ 14رکنی کمیٹی بین مذاہب شادی کرنے والی خواتین کے حقوق کاتحفظ کرے گی۔رشتہ داروں یا میاں بیوی کے درمیان تشدد یا جھگڑے کی شکایت ہو تو ان کا خیال رکھے گی نیز یہ بھی دیکھے گی کہ ایسی شادی کرنے والے جوڑے الگ الگ تونہیں ہوئے، عورتوں کے معاملے میں یہ بھی دیکھاجائے گا کہ کیا ان پر مذہب کی تبدیلی کا دبائو تو نہیں ہے،سسرال والوں کے رویہ کاجائزہ لیاجانابھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔
یہ ملک بھرمیں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی حکومت نے بین مذاہب شادیوں کی نگرانی کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے یہ فیصلہ بین مذاہب لیوان ریلیشن میں رہنے والے شردھا-آفتاب پونے والا کیس کے پس منظر میں لیا ہے۔یہ معاملہ حال میں سامنے آیا تھا۔شردھاوالکر کے لیو ان پارٹنر 28 سالہ آفتاب امین پونہ والا نے نہ صرف مبینہ طور پر اپنی ساتھی کو قتل کیا بلکہ اس کے جسم کے 35 ٹکڑے بھی کر ڈالے تھے۔ آفتاب اور شردھا کا رشتہ سال 2018-2019 میں شروع ہوا تھا۔ شردھا کے گھر والے اس رشتہ کے خلاف تھے۔ گھر والوں کی مخالفت کے بعد یہ جوڑا مہاراشٹر کے پال گھر سے ممبئی اورپھر بعد میںدہلی منتقل ہوگیا جہاںآفتاب پونے والا نے شردھا کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے بھی ٹکڑے کردیے۔اس واقعہ کے بعد سے مہاراشٹر میں اس پر بڑے پیمانہ پر بحث ہوئی اور مختلف تجاویز اور قرار داد کے بعد حکومت نے 14نفری کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔اس سے قبل بین مذاہب شادی کو ’ لوجہاد‘ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے بہت سی ریاستی حکومتوں نے کئی طرح کے الگ الگ قوانین بنارکھے ہیں اور ان کے نفاذ میں بھی کافی سرگرم نظرآتی ہیں۔کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں، جہاں لوجہاد کے خلاف باقاعدہ مہم جاری ہے۔ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں تو ایسے جوڑوں کو گرفتار کرکے انہیں سزا یاب بھی کرایا جارہا ہے، خاص کر مسلم لڑکوں کے معاملے میں انتہائی ظالمانہ طریقہ سے اس قانون کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
مہاراشٹر حکومت کی اس نئی کمیٹی کے مقاصد قیام میں بظاہر کوئی خرابی نظر نہیں آرہی ہے۔ایسی عورتوں کا تحفظ ہوناچاہیے جو کسی دھوکہ کا شکار ہوکر کسی غیر مذہب کے مرد سے شادی کرکے اپنی زندگی خراب کرلیتی ہیں یا تکلیف و اذیت کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی عورتوں کا تحفظ کیاجاناچاہیے ، ان کے حقوق کا تحفظ بھی ہونا چاہیے۔ کوئی بھی حکومت اگر یہ کام کرتی ہے تو اس کی ستائش بھی کی جانی چاہیے۔ لیکن صرف بین مذاہب شادی کرنے والی ہی عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیوں؟کیا صرف غیرمذہب کے آدمی سے ہی شادی کرنے والی عورتیں مظالم کا شکار ہوتی ہیں، کیا دوسری ذات یا پھر ایک ہی ذات میں شادی کرنے والی عورت پر کوئی ظلم نہیں ہوتا ہے؟اس کمیٹی کے مقاصد سے بین ذات (انٹر کاسٹ)شادی کااخراج بھی اس کی نیک نیتی پر سوال کھڑ ے کرتا ہے۔
ہندوستان میں ایک ہی ذات، طبقہ یا فرقہ کے میاں بیوی کے درمیان تشدد، تنازعات، مار پیٹ، بیوی کو جلانے، قتل کرنے اور زہر دینے کے واقعات روزانہ ہوتے ہیں، انہیں صرف بین مذاہب شادیوں میں تلاش کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ اس سے تو یہی شبہ ہو رہا ہے کہ یہ شاید مسلم نوجوانوں کے خلاف بزن کی تیاری ہے جسے مہاراشٹر کی حکومت نے ’عورتوں کے تحفظ‘ کا نام دیا ہے۔بظاہر نیک مقصد رکھنے والی یہ کمیٹی ملک کی گنگاجمنی تہذیب اور کثیر جہتی معاشرہ میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پرنئی ہنگامہ آرائیوں کا آغاز ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS