محمد اقتدار حسین فاروقی
تو ہم پرستی یوں تو ضعیف الاعتقادی کا دوسرا نام ہے لیکن اگر اسکا پورے طور سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ایک ایسا خلافِ عقل، بے شعور اور پست قسم کا انسانی طرز فکر ہے جو لاعلمی، نادانی، بے خبری اور جہالت کی بنا پر کسی نا معلوم اور پوشیدہ بے منطق اور بے سبب ڈر اور خوف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور ان سے متاثر شدہ انسان ایسی غیر بصیرت افروز اور گمراہ کن تصورات کا شکار ہو جاتا ہے جو صرف مخرِب اخلاق ہی نہیں ہوتے بلکہ سائنسی دلائل اور حقائق کی مخالفت کرتے ہوئے اصل مذہب اور اس کی روح کو پامال بھی کر دیتے ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ توہم پرست ان باطل خیالات کو مذہب سے منسوب کر دیتے ہیں۔ چنانچہ سائنسی شعور رکھنے والے باہمت اور منطقی لوگ جب اسی قسم کے فرسودہ رسم و رواج اور تصورات کی مخالفت کرتے ہیں تو انھیں مذہب کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ذہین، ذی علم، ذی شعور اور اہل بصیرت عالموں اور سائنسدانوں کو مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف حصوں میں صرف اس لئے زہر کا پیالہ پلایا گیا، سنگسار کیا گیا یا اذیتیں دی گئیں کیونکہ انھوں نے توہم پرستی کا پردہ فاش کیا اور اس کو سماج کے لئے ایک مرض تجویز کیا۔ لیکن ان نامور دانشوروں کی قربانیاں بے کار نہیں گئیں۔ جب بھی ان پر ظلم ٹوٹا تو سائنسی سچائیاں اور حقیقتیں ابھر کر سامنے آئیں اور سماج کا ایک بڑا طبقہ کمزور اعتقاد کی لعنت سے آزاد بھی ہو گیا۔ پچھلی ایک صدی میں سائنس کی حیرت انگیز ترقی کی بنا پر عام طور سے عوام میں ایسا شعور پیدا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں توہم پرستی کو ختم کرنے میں بڑی مدد ملی ہے۔ یہ عمل مغربی ممالک میں تو کسی حد تک قابل اطمینان بخش کہا جا سکتا ہے، لیکن مشرقی اقوام میں یہ تصورات اس حد تک باقی ہیں کہ وہ سماجی اور معاشی ترقی میں حائل ہوتے رہتے ہیں اس سے قبل کہ معاشرہ میں اس کے مضر اثرات کو بیان کیا جائے اور ان طریقوں پر روشنی ڈالنے کی سعی کی جائے جس سے انسانی فکر و عمل کو توہم پرستی سے نجات ملے۔ بہتر ہوگا کہ ان دلچسپ لیکن خلاف عقل توہمات کا ذکر کیاجائے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں یا تو ماضی میں اپنائے جاتے تھے یا کہیں کہیں اب بھی ان پر یقین کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مغرب کے زیادہ تر ملکوں میں پرانے توہمات کو اب ایک خوبصورت رسم یا Etiquette یعنی آداب کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں مغرب اور مشرقی رومن سلطنت کے ان توہمات کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے نجات پانے میں دور ماضی کے اسلامی معاشرہ نے اہم رول ادا کیا ہے۔
جنوبی فرانس میں جب مچھیرے اپنی کشتیاں لے کر سمندر میں نکلتے تھے تو گائوں کی جوان عورتیں ساحل کے کنارے کھڑے ہوکر سمندری پانی پر پھول برساتی تھیں کیونکہ ایسا کرنے سے یہ اعتقاد تھا کہ مچھلیاں آسانی سے جال میں آ جاتی تھیں۔ آج بھی یہ رواج کسی حد تک رائج ہے لیکن توہم پرستی کے طور پر نہیں بلکہ ایک خوبصورت Tradition کے طور پر۔ فرانس میں اگر کسی پادری کے پاس سے کوئی شخص غلطی سے آگے نکل جاتا تو وہ اس کو بدتمیزی ہی نہیں تصور کرتا تھا بلکہ کسی ناگہانی آفت کا شکار ہونے کا خوف رہتا تھا اور اس کا گویا کہ توڑ یہ تھا کہ فوراً کسی لوہے کو چھو لیا جائے۔جرمنی میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اگر بلی کو کسی نے مار دیا ہے تو وہ خود اپنی موت کے بعد جب قبر میں اتارا جائے گا تو زبردست طوفانی ہوائیں چلیں گی اور تیز بارش ہوگی۔جاپان میں یہ عام عقیدہ تھا کہ سفر سے قبل ناخن نہ کاٹے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے سفر میں خطرات کا سامنا ہو سکتا تھا۔
فی جی آئس لینڈ میں قبائلی لوگ سمجھتے تھے کہ اگر وہ اپنی ساری دولت مذہبی رہنما کے حوالے کر دیں گے تو ان کے دشمنوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔نیوزی لینڈ میں ایک رواج یہ تھا کہ مردے کے ہاتھ باندھ کر اسکے ناخن نکال لئے جاتے تھے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے خطرہ اس بات کا تھا کہ مردہ ہاتھ کے ناخن کی مدد سے قبر کھود کرنکل جائے گا اور بھوت بن کر پریشان کرے گا۔کیوبا میں رات کو چاندنی میں سونا بْرا تصور کیا جاتا تھا کیونکہ لوگوں کا یقین تھا کہ ایسا کرنے والے کا منہ چہرے کے الٹی جانب کھسک جاتا ہے۔
مصر میں زمانہ قدیم میں اس کالے سانڈ کی پرستش ہوتی تھی جس کے ماتھے کے بیچوں بیچ ایک سفید داغ ہوتا تھا۔ کیلوپٹرا کے زمانہ میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا سانڈ قیامت ڈھا سکتا ہے اگر اس کی پرستش کرکے اس کو منایا نہ گیا تو۔
انگلینڈ میں جھینگْر کو مارنا ایک خطرناک عمل تصور کیا جاتا تھا۔ ایسا کرنے والے لوگ ساری زندگی پریشانیوں میں گویا مبتلا رہتے تھے۔میکسیکو میں اب بھی جب لوگ آتش فشاں پہاڑیوں کی جانب سفر کرتے ہیں تو اپنے ساتھ حفاظت کی ضمانت کے طور پر ایلوہ (Aloes) یعنی گھینگواڑ کی پتی لے جاتے ہیں۔ مصر اور عرب کے بعض علاقوں میں ایلوہ کی پتیوں کو اپنے گھر کے باہر لٹکا دیتے تھے اور باور کرتے تھے کہ اس کی بنا پر ان میں قوت برداشت پیدا ہوتی ہے اسی لئے اس کا نام صبر ہو گیا۔
ناروے میں عام لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ان کے ملک کے قریب کے سمندر میں ہر 7 سال میں ایک مرتبہ ایسی مخلوق کا ظہور ہوتا تھا جس کا جسم مچھلی کا اور سر انسان کا ہوتا تھا۔ اس مخلوق کو جو بھی دیکھ لیتا وہ فوت ہو جاتا اور اس کے پاس سے گذرنے والے جہاز فوراً غرق آب ہو جاتے۔پیرو (Peru) میں بارش نہ ہونے کی صورت میں کالی بھیڑ کھیت میں باندھ دیا کرتے ہیں اور اس کو اس وقت تک بھوکا اور پیاسا رکھتے جب تک کہ بارش نہ ہو جائے۔پولینڈ میں بکرا تو خوش قسمتی کی نشانی سمجھا جاتا تھا لیکن کوا اور کبوتر بدقسمتی کی علامت تھے۔اسکاٹ لینڈ میں نئے سال کے دن گھر کی ساری نمک دانیاں نمک سے بھر دی جاتی تھیں کیونکہ ایسا کرنے سے نیا سال خوشحالی لاتا تھا۔سوئیڈن میں کسی بچے کو کالی کھانسی سے نجات دلانے کے لئے گدھے کے تین بال کھلا دیئے جاتے۔ بال کھاکر ایک طرف بچے کو افاقہ ہوتا جاتا تو دوسری طرف گدھا مر جاتا۔ترکی میں دولہا سے شادی کے وقت ایک پکے ہوئے انار کو زمین پر پھینکنے کے لئے کہا جاتا۔ اعتقاد یہ تھا کہ ٹوٹ کر انار کے جتنے دانے بکھر جائیں گے اتنی ہی اولادیں نئے جوڑے کی ہوں گی۔
امریکہ کے نیوجرسی کے علاقہ میں کچھ اس قسم کی روایت تھی کہ اگر چرایا ہوا آلو جیب میں رکھ لیا جائے تو اس سے Rheumatism یعنی جوڑوں کا درد جاتا رہتا ہے۔ امریکا میں ہی ایک عرصہ تک Messacchuset کے لوگ یقین کرتے تھے کہ اگر رات کے سناٹے میں گائے بولتی ہے تو اس کے مالک کے گھر میں کوئی موت ہونے والی ہے۔
افریقہ کے کچھ علاقوں میں آج بھی قبیلہ کے سردار کی موت پر اس کی لاش کو دفنایا نہیں جاتا ہے بلکہ بواباب نام (ہندی پری جات) کے پودے کے تنے میں خول کرکے اس کو اس میں بحفاظت رکھ دیا جاتا ہے اس طرح ان کا عقیدہ ہے کہ وہ سردار گویا زندہ و جاوید رہ کر قبیلہ کی رہبری کرتا رہے گا۔ کیونکہ گویا اس درخت میںجو رہتا اسے موت نہیں آتی۔ افریقہ ہی میں کچھ قبیلوں میں کالے ناگ کو مار کر اس کی کھال کو کسی درخت کی ٹہنی میں لٹکا دیاجاتا اور ایک سال کی عمر کے بچوں کے ہاتھ اس کھال پر رکھے جاتے۔ اس طرح وہ بچے ساری زندگی اس سانپ کی حفاظت میں رہتے۔
قطب شمال میںعلاقہ کے رہنے والے اِسکی مْوز (Eskimos) طوفانی ہوائوں سے نجات پانے کے لئے یا تو زور زور سے چیختے چلاتے اور drum بجاتے ہیں اور اگر اس سے طوفان نہیں تھمتا ہے تو بعض قبروں میں آگ لگا دیتے ہیں کیونکہ گویا ایسا کرنے سے طوفان سہم کر اپنا اثر کھو دیتا ہے۔
Green land کے رہنے والے اپنے بچوں کی موت پر ان کو کتے کے ساتھ دفن کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے عقیدہ میں کتّا ہی ایک ایسا جانور ہے جو صحیح راستہ کی نشاندہی کرتا ہے چنانچہ وہ بچے اپنی آئندہ زندگی میں راستہ تلاش کرنے میں کتے کی مدد لیتے رہیں گے۔
قبل اسلام عرب معاشرہ میں عوام گمراہ کن توہمات اور عبرتناک انگیز فرسودہ رسم ورواج میں مبتلا تھا جنھیں وہ دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ قبروں کے پاس اونٹ کو باندھ کر اسے بھوک وپیاس سے مرنے دینا گویا اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ قبر کا مردہ جب چاہے گا تو اس اونٹ پر سواری کرسکے گا۔ قبروں پر جاکر عورتیں گریہ کرتیں اور وجد (Ecstasy) کی حالت میں اپنے اوپر خاک ڈالتیں اور سمجھتیں کہ ایسا کرنے سے قبر کا مردہ سکون پائے گا۔خرافہ نام کے ایک شخص سے منسوب قصہ کہانیاں سنائی جاتیں جن میں بھوتوں اور انسانوں کے بیچ باقاعدہ جھگڑوں اور سوال وجواب کا تفصیلی ذکر ہوتا۔
عرب کوّے کو منحوس اور موجب فراق بتاتے تھے، خرگوش کی ہڈیاں بچوں کے گلے میں باندھ کر انھیں بلاؤں (بھوتوں) سے محفوظ کردیتے، وباؤں سے بچاؤ کی خاطر گدھے کی آوازیں نکالتے۔ کاہن (گذشتہ کا حال بتانے والے) اور عراف (آئندہ کا حال بتانے والے) سماج میں اہم مقام رکھتے، اولاد کے ہونے اور اس کے زندہ رکھنے کی خاطر حاملہ عورت کا پیر کسی مردہ کے سینے پر رکھا جاتا، عورت کی پاکدامنی یا اس کی بدکاری کا حال اس گرہ سے معلوم کیا جاتا جو رَتم نام کے درخت پر باندھی جاتی۔ مختلف خطرناک امراض کا سبب اس سانپ کو سمجھتے جو ان کے نزدیک ہر شخص کے پیٹ میں ضرور ہوتا تھا۔ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے جوئے کھیلے جاتے جن میں سب سے بڑا جوا حبلی نامی بت کے سامنے کھیلا جاتا۔ غرضیکہ ساری مغر ب اور مشرق کی رومن قوم قبل اسلام عبرت انگیز توہمات میں مبتلا تھی۔
یہ توچند مثالیں ان حیرت انگیز اور افسوس ناک توہمات کی ہیں جن پر ماضی میںدنیا کے مختلف علاقوں میں ایمان لایا جاتا تھا لیکن اب ان سے زیادہ تر مغربی ممالک نے نشاتہ ثانیہ کے بعد نجات حاصل کرلی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی فرسودہ رسم و رواج اور توہمات کی کمی نہیں ہے جس سے عوام نے پوری طور سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیںلیکن پھر بھی یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے سماج میں دو اقسام کے توہمات کا چلن ہے۔ ایک تو وہ جو غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہیں لیکن کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے۔ جیسے بلی کا راستہ کاٹنے سے کام کا نہ ہونا، کچھ خاص دنوں میں کچھ خاص سمتوں میں سفر نہ کرنا۔ کسی نے پیار سے دیکھ لیا تو نظر کا لگ جانا، کچھ خاص تاریخوں کا منحوس ہونا، شیشہ ٹوٹنے کو بدبختی سے تعبیر کرنا، چھینک آنے کو کام کی رکاوٹ سمجھنا، آلو کھلا کر کسی کو اپنا عاشق بنا لینا، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری قسم ان توہمات کی ہے جو جان کا وبال ہی نہیں بلکہ جان لیوا بھی ہیں ایسے نہ جانے کتنے توہمات ہیں جو صرف معصوم جانیں ہی لیتے بلکہ آپس کے خاندانی تعلقات خراب کرانے کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔یہ صورت حال صرف اس لئے ہے کہ عوام میں سائنسی شعور اور مزاج کی کمی ہے۔ لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے۔ سماجی کارکن یا سیاستداں۔ اہل قلم حضرات یامذہبی رہنما۔ حکومت وقت یا خود سائنسداں۔ یہ ایک طولانی بحث ہے جس میں قطعی فیصلہ ممکن نہیں۔ لیکن وقت آگیاہے کہ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ ایک بھرپور کوشش ہو اس بات کی کہ عوام میں سائنسی رویہ پیدا ہو اورتوہمات زندگی میں اثر انداز نہ ہوں۔ اس کام کی ذمہ داری ہر تعلیم یافتہ فرد پر عائد ہوتی ہے خواہ وہ کسی طبقہ یا فن سے تعلق رکھتا ہو۔ ادیبوں اور صحافیوں کا اس میں مثبت اور کسی حد تک Aggressive رول ہونا چاہئے۔
کچھ لوگ اوہام پرستی کو مذہب سے جوڑ کر سچ پوچھئے تو مذہب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ توہمات پر یقین نہ تو خدائی عبادت ہے اور نہ ہی مذہبی اعتقادات کا جز ہے۔ جو واقعی عالمِ دین ہوتے ہیں وہ نہ تو توہم پرست ہوتے ہیں اور نہ ہی سائنسی خیالات کے مخالف۔ بھوتوں اور جناتوں کو بوتلوں میں بند کرنے کا دعویٰ کرنے والے عالمِ دین نہیں ہوتے۔
پنڈت نہرو نے ایک مرتبہ سائنس کانگریس کو خطاب کرتے ہوئے بہت صحیح بات فرمائی تھی کہ سیاسی آزادی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک سماج تو ہم پرستی اور فرسودہ رسم ورواج سے آزاد نہیں ہوجاتا۔ یہ تو ہم پرستی ہماری سماجی اور معاشی ترقیوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ ملک کے ہر طبقے اور ہر حصے میں سائنسی شعور پیدا کیا جائے اور توہمات کی آڑ لے کر جو لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں ان کے عمل کو قابل مذمت اور ہوسکے تو قابل سزا سمجھا جائے۔
مذاہب کی تاریخ اس سچائی کی گواہ ہے کہ ساری دنیا میں سب سے کاری ضرب جو توہمات پر لگائی گئی وہ اسلام نے لگائی ہے۔ مسلمانوں نے پیغمبرِ اسلام کے ارشادات پر سختی سے عمل کیا جن میں توہمات سے بچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ایک حدیث میں خرافات (خرافہ کے قصے) سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی۔ بخاری اور مسلم کے بموجب اللہ کی نشانیوں (مثلاً سورج گرہن) کوانسان کی زندگی اور موت سے لاتعلق بتایاگیا۔ بیماریوں کو اللہ کا قہر نہ سمجھنے کا حکم دیا گیا اور علم کے حصول کی تاکید اس طرح کی گئی کہ علم حاصل کرو۔ ’’مہد سے لے کر لحد تک‘‘ اور یہ بھی فرمایا گیا کہ علم کے حصول کیلئے کچھ اس طرح سرگرداں رہو جیسے کہ وہ تمہاری اپنی ہی کھوئی ہوئی دولت ہے۔
مختلف تہذیبوں اور ملکوں میں توہم پرستی : محمد اقتدار حسین فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS