سربراہ اجلاس اور اپوزیشن کا رویہ

0

اودھیش کمار

راجدھانی دہلی میں منعقدہ جی20 اجلاس کی کامیابی سے متعلق کسی جانب سے کوئی سوال نہیں اٹھا ہے۔ زیادہ تر ممالک کے لیڈران اور سفارتکاروں نے ہندوستان کی صدارت، اس کی تیاری، انتظام، دنیا کے چھوٹے بڑے اہم ایشوز کو حل کرنے کے لیے اٹھانے اور سبھی ممالک کے مابین اتفاق رائے قائم کرنے میں حاصل ہوئی کامیابی کی ستائش کی ہے۔ حالاں کہ ملک میں اپوزیشن کی جانب سے اسی طرح کا ردعمل نہیں مل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن نے اجلاس کو ناکام بتایا یا وزیراعظم کی تقاریر یا کسی دیگر پہلو سے متعلق بڑے سوال اٹھائے، لیکن جس طرح پوری دنیا نے ہندوستان کی قدیم تہذیب، ثقافت اور وراثت کو سمجھتے ہوئے عالمی سطح پر اس کی قیادت کی صلاحیت کو تسلیم کیا ہے اسی طرح کی بازگشت ہندوستان میں بھی ہونی چاہیے تھی۔اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرکردہ لیڈر راہل گاندھی غیرممالک میں رہے اور وہاں سے مودی حکومت کو اقلیتوں، دلت، کمزور طبقوں کا مخالف ثابت کرتے رہے جیسے وہ پہلے کرچکے ہیں۔ جب خود راہل گاندھی ہی جی20کے اتنے بڑے موقع پر مثبت کردار نہیں ادا کررہے تھے تو پھر ان کی پارٹی کے دیگر لیڈر ایسا کیسے کرسکتے تھے۔ نتیجتاً کانگریس سمجھا نہیں پائی کہ اسے ہندوستان میں آئے دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور لیڈروں والے اس اجلاس پر کیا اسٹینڈ لینا چاہیے۔ اس کے وزیراعلیٰ میں ہماچل کو چھوڑ کر اور کوئی صدر کے ذریعہ مدعو کیے گئے ڈنر میں نہیں آیا۔ کیا سب سے زیادہ وقت تک مرکز کی اقتدار میں رہنے والی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کا یہ رُخ مناسب سمجھا جائے گا؟
حالاں کہ پوری کانگریس یا اپوزیشن نے اسی طرح کا کردار نبھایا، ایسا نہیں ہے۔ جی20اجلاس کے پہلے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنی زندگی میں جی20کی صدارت کرتے ہوئے ہندوستان کو دیکھنا میری خوش قسمتی ہے۔ اسی طرح کانگریس کے لیڈر ششی تھرور نے جی20میں منظور دہلی اعلامیہ کو ہندوستان کی سفارتی جیت بتادیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ انہوں نے کچھ ایسا کیا جو پہلے کسی جی20اجلاس میں نہیں ہوا تھا۔ تھرور نے یہ بھی کہا کہ کچھ ماہ میں جی20کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کا کریڈٹ ہندوستان کو جاتا ہے۔ ششی تھرور کی ایک ایک بات سچ ہے۔ مثلاً وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی قیادت میں اسے بہت بڑا ملک گیر پروگرام بنادیا؟ 60شہروں میں 200سے زیادہ میٹنگیں، بڑی تعداد میں پروگرام اور جی20کو عام عوامی تقریب میں بدل دینا، سول سوسائٹی اور تھنک ٹینک کی میٹنگیں یہ سب جی20کی تاریخ میں بے مثال تھیں۔ کسی دیگر ملک نے پہلے ایسا نہیں کیا تھا۔ حالاں کہ تھرور نے قبول کیا کہ جی20کو ایسی شکل میں پیش کرنے کی حکمراں پارٹی کی کوشش بھی ہے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ملے گا۔ ممکنہ طور پر ان کو اس بات کا ملال تھا جیسا انہوں نے کہا ہے کہ حکمراں پارٹی نے کبھی بھی ایسے اجلاسوں میں قیادت کا اس طرح جشن نہیں منایا۔
یہ وزیراعظم مودی کا انداز ہے جس میں وہ ہر موقع کو بہترین طریقہ سے کرتے ہوئے عوام اور دنیا کے درمیان ہندوستان، حکومت وغیرہ کے تناظر میں جو کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں اس میں اپنی جانب سے کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ اس سے اگر اپوزیشن کو مسئلہ ہے تو اسے بھی وزیراعظم مودی اور ان کی قیادت میں حکومت اور بی جے پی کے کام کرنے کے انداز کو سیکھنا چاہیے۔اگر ملک میں نظریاتی طور پر نریندر مودی، بی جے پی اور سنگھ کو لے کر بنائی گئی مسخ شدہ سوچ نہ ہواور ان کو دشمن مان کر سلوک کرنے والے لوگ لمحہ بھر بیٹھ کر بھی ایمان داری سے اپنے رویہ پر غور کریں تو کافی کچھ بدل سکتا ہے۔ لیکن جب آپ یہ مان لیتے ہیں کہ مودی، ان کی تنظیم اور ذیلی تنظیمیں سب بری ہیں، ان کے پاس کچھ اچھا ہے ہی نہیں، یہ ہمیشہ نفرت کی سوچ رکھتے ہیں اور وہی سلوک کرتے ہیں تو پھر آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ یہ ایسا موقع تھا جسے کانگریس اور دوسرے اپوزیشن لیڈر چاہتے تو اپنی سیاست کے لیے بھی مثبت استعمال کرسکتے تھے۔ وہ اس تقریب کے شرکاء بنتے بھی نظر آسکتے تھے، تقریب کی کامیابیوں کے تعلق سے بیان دے سکتے تھے، اپنی جانب سے بھی دنیا بھر سے آئے لیڈران کا ہندوستان میں خیرمقدم کا اعلان کرسکتے تھے، ہندوستان پوری دنیا میں مستقبل کے سپرپاور کے طور پر خود کو قائم کرنے میں اس کے ذریعہ سے کافی حد تک کامیاب ہوا اس بات کو قبول کرکے بتاسکتے تھے کہ یہ ملک کا معاملہ ہے اور ہم اس میں ساتھ ہیں۔ اس سے اپوزیشن کی ایک ذمہ دار مثبت اور قوم پرست ہونے کی شبیہ بنتی۔ دنیا کے لیڈر بھی یہ پیغام لے کر جاتے کہ ہندوستان کی اپوزیشن واقعی ذمہ دار ہے۔
بہار، بنگال، جھارکھنڈ، ہماچل، تمل ناڈو وغیرہ کے وزیراعلیٰ صدر کے ذریعہ منعقد ڈنر میں شامل ہوئے۔ وزیراعظم مودی کی ہماچل کے وزیراعلیٰ سکھوندر سکھو کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے اور غیرملکی لیڈران سے ملاقات کرتے ہوئے تصاویر وائرل بھی ہوئیں۔ نتیش کمار، ممتابنرجی، ہیمنت سورین کے ساتھ مرکزی وزرا کی تصویریں بھی سامنے آئیں۔ صدر کی دعوت کا احترام کرکے انہوں نے ہندوستانی سیاست کے وقار کو بچایا ہے۔ ایسا ہی کانگریس کے اور اپوزیشن کے دوسرے وزرائے اعلیٰ نے نہیں کیا۔ ابھی وہائٹ ہاؤس کی ایک خاتون افسر کا بیان انڈیا ایبراڈ سروس کے ذریعہ سے دنیا بھر میں چل رہا ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ انہوں نے راہل گاندھی کی کچھ باتیں سنی ہیں۔ وہ اپنے ملک کی غیرممالک میں تنقید کرتے ہیں جو ٹھیک نہیں ہے۔ اسی خاتون نے یہ بھی کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ ہندوستان کے لوگ پھر بھی انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ کانگریس کی حکمت عملی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح دنیا بھر میں اپنی شبیہ بنائی اور تعلقات وسیع کیے ہیں اس کے متوازی راہل گاندھی کو کھڑا ہونا ہے تو انہیں ایسے مواقع پر غیرممالک میں جاکر بات کرنی چاہیے تاکہ کانگریس اور وہ چرچا میں رہیں۔ اس حکمت عملی کو مناسب نہیں سمجھا جاسکتا۔ جی 20آج دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ممالک سے لے کر مستقبل کے عالمی نظام کو سمت دینے کی اکیلی صلاحیت رکھنے والا گروپ ہے۔ اس کی صدارت اور انعقاد کسی بھی ملک کے لیے بہت بڑا موقع ہوتا ہے۔
سچ کہیں تو آئی این ڈی آئی اے اتحاد کے زیادہ تر فریق نے ایک بڑے موقع کو گنوا دیا ہے۔ راہل گاندھی برسیلس، پیرس اور اوسلومیں یہ کہہ رہے تھے کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور مودی حکومت اقلیتوں،دلت اور کمزور لوگوں کے اظہار رائے پر قدغن لگا رہی ہے، اپوزیشن کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ حقیقت میں وہ یہ بتارہے تھے کہ ہندوستان میں ایک فاشسٹ حکومت ہے جو ایک ہی مذہب اور نظریہ کو موردالزام ٹھہراتی ہے اور دوسرے مذہب اور نظریہ کو قبول نہیں کرتی۔ دوسری جانب دنیا کے لیڈر سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان نے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں جی20میں گلوبل ساؤتھ یعنی ترقی پذیر ممالک کو اہمیت دے کر، ان کے ساتھ غوروخوض کرکے اور افریقی یونین کو شامل کراکر اسے زیادہ جمہوری اور عالمگیربنایا ہے۔ تو جو قیادت عالمی تنظیم کو زیادہ جمہوری اور عالمگیر بنانے کا برتاؤ کررہی ہے وہ اپنے ملک میں غیرجمہوری اور اجارہ دار ہوگی یہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟ سچ یہی ہے کہ دنیا کے کسی ملک کی حکومت نے سرکاری طور پر راہل گاندھی کی بات کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ شاید اس لیے انہیں بار بار غیرممالک میں جاکر اپنی باتیں رکھنا پڑرہی ہیں۔ جی20کے بعد تو ان لیڈران کے دل پر مودی اور ان کی حکومت کے بارے میں زبردست دھاک جمی ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی کی وزیراعظم جیورجیا میلونی نے کہا کہ وزیراعظم مودی دنیا کے سب سے چہیتے لیڈر ہیں۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ واقعی یہ دنیا کے کتنے بڑے لیڈر ہیں۔ اس کے لیے انہیں بہت بہت مبارکباد۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS