دشمن کے ہاتھوں ہلاکت سے زیادہ خودکشی

0
nytimes.com

بظاہر جنگ کا کوئی بڑا مقصد نظر نہ آئے تو وہ جنگ لڑنے والوں کے لیے دشوار بن جاتی ہے۔ 9/11 کا واقعہ ہوا، یہ واقعہ امریکیوں کو ہلا دینے والا تھا، اس واقعے کو انجام دینے کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈالی گئی، افغانستان کے خلاف جنگ اس لیے چھیڑی گئی کہ وہاں وہ پناہ گزیں تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ بعد میں اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں ہلاک کیے جانے کی خبریں آئیں۔ سوال یہ ہے کہ 2 مئی، 2011 کو اسامہ کی کہانی ختم کر دیے جانے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کے رکنے کا کیا جوازتھا؟ یہ جواز اگر یہ تھا کہ نجات اسامہ سے ملی تھی، طالبان سے نہیں تو طالبان ابھی بھی زندہ ہیں، متحرک ہیں، پھر امریکہ کو افغان جنگ کیوں ختم کرنی پڑ رہی ہے؟ کیا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ 2011 تک امریکی لیڈران چین کے سلسلے میں خوش فہمی میں مبتلا تھے اور اب انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انہیں چین پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی، ورنہ طالبان کو شکست دینے کی جدوجہد میں وہ دنیا ہار جائیں گے، کیونکہ اقتصادی طور پر چین بہت آگے نکل چکا ہے۔ امریکہ اور چین کی اکنامی میں 6 ٹریلین ڈالر کا فرق رہ گیا ہے تو اقتصادی محاذ پر تیسرے نمبر پر جاپان کی اقتصادیات چین کی اقتصادیات سے 11 ٹریلین ڈالر پیچھے ہے، اس لیے امریکہ کے پاس وقت زیادہ نہیں بچا ہے۔ اسی لیے چین سے نمٹنے کے لیے افغان جنگ ختم کرنی ہی ہوگی اور اسی لیے یہ جنگ ختم کی جا رہی ہے مگر یہ جنگ اگر 10 برس پہلے ہی ختم کر دی جاتی، اگر جھوٹے بہانے سے عراق پر حملہ نہیں کیا جاتا، عراق کو تباہ نہیں کیا جاتا تو کیا بہت سے امریکی فوجیوں کو خودکشی سے بچانے میں کامیابی نہیں ملتی؟
افغان جنگ کو امریکی فوجی باجواز مان سکتے تھے مگر حساس امریکی فوجی، دوسروں کی طرح خود کو انسان ماننے والے امریکی فوجی عراق جنگ کو کیسے باجواز مان سکتے تھے، اس لیے امریکی فوجیو ںکی خودکشی کے حوالے سے آنے والی رپورٹ حیران کن نہیں، البتہ افسوسناک ضرور ہے، کیونکہ امریکہ کا فوجی فرض کی ادائیگی اور جنگ کے جواز کو نہ ماننے کی وجہ سے خودکشی کرے یا افغانستان اور عراق کے بے قصور لوگ مارے جائیں، جان تو آخر انسانوں کی ہی گئی اور کسی بھی انسان کی جان جانے پر دکھ ہی ہوتا ہے۔ امریکی لیڈروں نے آج تک جتنی جدوجہد اپنے ملک کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنائے رکھنے کے لیے کی ہے، اگر تھوڑی جدوجہد انسانوں پر توجہ دینے کے لیے انا کو پرے رکھنے پر کر دیتے تو دنیا کے حالات کچھ اور ہوتے، امریکہ کی وجہ سے دنیا میں جنگ نہیں ہوتی اور اگر ہوتی تو کم ہوتی، کم لوگ ہلاک ہوتے، کم امریکی فوجی خودکشی کرتے مگر براؤن یونیورسٹی کے تحقیقی ماہرین کی رپورٹ کے حوالے سے خبر یہ آئی ہے کہ ‘11 ستمبر 2001 کے بعد فوجی خدمات انجام دینے والے امریکی اہلکاروں میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔۔۔۔ اس دورانیے میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں7 ہزار57 اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 30 ہزار 177 نے خودکشی کی۔‘ رپورٹ نے یہ بات بھی آشکارا کی ہے کہ ’جن امریکی اہلکاروں نے خود کشی کی، وہ جنگی خدمات دینے کے حق میں نہیں تھے اور خوف کی وجہ سے ذہنی امراض کا شکار ہوگئے تھے ۔ ماہرین نے بتایا کہ فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں جن میں دماغی چوٹ، زخم یا گھر سے دوری سمیت دیگر شامل ہیں۔‘
براؤن یونیورسٹی کے ریسرچروں کی رپورٹ سے اور بھی کئی باتیں سامنے آئی ہیں۔ رپورٹ یہی بات سمجھاتی ہے، جو آج تک کہی جاتی رہی ہے کہ ’جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے؍ جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘۔ 2001 سے اب تک کے 20 برس میں امریکہ نے دو بڑی جنگیں لڑیں۔ اسی عرصے میں امریکہ کے عام شہریوں کی خودکشی کے مقابلے ریٹائرڈ فوجیوں میں خود کشی کی شرح 1.5 گنا زیادہ رہی تو 18 سے 35 سال کی عمر کے فوجیوں میں یہ شرح 2.5 گنا زیادہ رہی۔ امریکی ماہرین کے مطابق، ’افغانستان، عراق سمیت دیگر ممالک میں تعینات امریکی فوجی ذہنی امراض اور شدید دباؤ کا شکار ہیں۔‘ مگر جواب طلب سوال یہ ہے کہ اس دباؤ کا احساس کیا امریکی لیڈروں کو ہے؟

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS