شاہنواز احمد صدیقی
سوڈان میں سیاسی بے چینی ختم کرنے اور جمہوری نظام کے قیام کو لے کر جدوجہد کی امیدیں 15؍اپریل کو اس وقت ہوگئی تھیں جبکہ ملک دوسب سے بڑے جنگ جو عبدالفتح البرہان اور محمد حمدان دفلو حمیدیتی نے آپس کے اختلافات کو ایک جارحانہ کش مکش میں بدل دیا اور آج نیل کی وادی کا عظیم حصہ ایک بارپھر میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ابھی تک تو سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کا یہ معرکہ راجدھانی خرطوم اوراس کے گرد ونواح اورکسی حد تک دارفر تک محدود تھا مگر سعودی عرب اور امریکہ کی سفارتی کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد بم دھماکوں کی آوازیں ملک کے مختلف گوشوں میں سنائی دینے لگی ہیں۔ دونوں فریقوں کو لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کا فن جانتے ہیں اور دونوں کو لگتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوںگے، دونوں اپنے آلات کے استعمال اور قتل عام مچانے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے میں یکتا ہیں۔ دونوں فوجی جنرلوں میں اختلافات اس قدرشدید ہیں کہ امریکہ نے مذاکرات کو بے معنی قرار دیتے ہوئے مصالحتی کوششوں کو تقریباً ترک کردیا ہے۔ دونوں متحارب گروپوں کے حکام جدہ میں ہیں مگرجدہ میں جو اتفاق رائے ہوتا ہے خرطوم میں ناکام ہوجاتا ہے۔
اس وقت خرطوم کی فضا میں صرف اور صرف بم دھماکوں، گولیاں چلنے اورجنگی جہازوں کی پروازوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس بدبختانہ جنگ میں کوئی اور دشمن نہیں مگر خود اپنے سوڈانی، عربی بولنے والے بہادر لوگ ہیں اس جنگ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ جمعرات کی صبح یعنی یکم جون کو مذاکرات ٹوٹنے کے بعد سوڈانی فوج (جس کی سربراہی دستوں ریپڈ سپورٹ فورسیز کے دو ٹھکانوں پر حملہ کرکے برباد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب اول روز سے ہی شکایت کر رہے ہیں کہ دونوں فریقوں کو مذاکرات کے ساتھ ساتھ کئے گئے فیصلوں پر عمل آوری کو یقینی بنانا ہوگا۔ فاقہ کشی، سیاسی عدم استحکام کے شکار اس ملک میں قیام امن کی کوشش اس وقت سے ہورہی ہیں جب جدہ میں عرب لیگ سربراہ کانفرنس چل رہی تھی اور پوری دنیا کو لگ رہا تھا کہ مغربی ایشیا اور عرب ممالک میں امن اور شانتی کی جو ہوا اس وقت چل رہی ہے اس کے اثرات تمام براعظموں اور دنیا کے دوسرے ممالک، عربی اور عجمی سب پر محسوس ہوںگے مگر بحراحمر کے کنارے جدہ میں ہونے والی اس کانفرنس کا اثربحراحمر کے دوسرے کنارے پر بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔ معمولی اور قابل حل تنازعات پر لڑی جانے والی جنگ ہر روز نہیں ہر لمحے پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔
امریکہ اس صورت حال کے لئے دونوں فریقوں کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اس سب کے باوجود سعودی عرب نے قیام امن کی امیدیں نہیں چھوڑی ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور سعودی عرب کے حکمراں کو لگتا ہے کہ 2030 کو محمدبن سلمان کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اور عرب دنیا کو اقتصادی خوشحالی اور امن و استحکام کامرکز بنانے میں سوڈان میں قیام امن لازمی ہے۔ مگرجنرل البرہان نے خرطوم میں اعلان کیاہے کہ ان کی فوج فتح حاصل کرنے تک جنگ لڑسکتی ہے مگرآر ایس ایف نے اپنے حق دفاع پر زور ڈالتے ہوئے جنگ کوجاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
جس وقت دونوں جنرلوں کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے تو دونوں سوڈان میں جمہوری نظام کے قیام کی سیاسی پارٹیوں سول سوسائٹی رضاکار تنظیموں اور دیگر پیشہ ورانہ مرد وخواتین تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے اور اپریل کے اوائل میں تقریباً تمام تصفیہ طلب امورپر اتفاق ہوگیا تھا مگر سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسیز کے آپس کے اختلافات میں شدت آگئی۔ جنرل حمیدیتی کو لگا کہ ان کی سربراہی والے فوجی گروپ کے حقوق اوران کے مفادات کو جنرل برہان نظرانداز کر رہے ہیں اور دستورساز کونسل کے قیام اور جمہوری نظام کے تمام امورپر اتفاق رائے ہونے کے باوجود ریپڈ سپورٹ فورسیز (آر ایس ایف) کی سوڈان کی فوج کے ساتھ ضم کرنے میں جنرل برہان تامل کر رہے ہیں۔یہی بدگمانیاں ان شکوک و شبہات کو قوی کر گئیں کہ آر ایس ایف کے مجوزہ نظام میں سوڈانی مسلح افواج دست نگر بن کر رہ جائے گی۔
15؍اپریل کو جنگ کی شروعات ہونے کے بعد سوڈان کی سول سوسائٹی سیاسی جماعتیں دیگر منظرنامے سے باہر ہوگئی ہیں۔ یہ جنگ پورے ملک کونظریاتی اختلافات میں بانٹ رہی ہے۔ پورا سماج اس کی زد میں آگیا ہے۔ اسلام پسند حلقے اورمسلح افواج جو جنرل برہان کے ساتھ ہیں جبکہ قبائلی طبقات جنرل حمیدی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسلام پسندوںکولگتا ہے کہ وہ جنرل البرہان کے ساتھ مل کر سوڈان کی ترقی یافتہ اور روشن خیال سماجی ٹولی کو ٹھکانے لگا دے گی۔ اور سوڈان کے سخت مذہبی نظریات کے حامل عسکری ٹولے کے اثرات قرب وجوار کے ممالک چاڈ، ایری ٹیریا وغیرہ میں بھی ہیں اور مصر و لیبیا میں اس خانہ جنگی کی تپش محسوس ہورہی ہے۔ امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ روسی صدر کے قریبی دوست اور دفاعی کمیٹی ویگنز گروپ جنرل حمیدیتی کی مدد کر رہا ہے اوراس طرح اس جنگ کے دو عالمی طاقتوںکے ملوث ہونے کے اندیشے قوی سے قوی تر ہوتے جارہے ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ عالمی برادری کواچھی طرح ہے اسی لئے افریقی ممالک کی نمائندہ تنظیم افریقی قوتیں، اقوام متحدہ، مشرقی افریقہ کے ممالک کے بلاک آئی جی اے ڈی سب اپنے اپنے طورپر جنگ بندی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کواندیشہ ہے کہ اس تصادم سے علاقے میں انسانی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ اب تک ایک ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور 425000 سوڈانی ملک چھوڑکر قرب وجوار کے ملکوںمیں پناہ لے چکے ہیں۔صورت حال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے اور علاقے میں کس قدر جنگی رقابتیں ٹکرائواور اختلافات ہیں پورے خطہ میں اس خونی تصادم کی زد میں آجائے گا۔ ٭٭
بربادیوں میں ڈوبتا سوڈان: شاہنواز احمد صدیقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS