نئی د ہلی:(بی بی سی )اتوار کوہندوستانی پارلیمنٹ سے چند میٹر کے فاصلے پر دہلی کے جنتر منتر پر ملک میں’’نوآبادیاتی دور کے قوانین کے خلاف‘‘ مارچ کے دوران مبینہ طور پر مسلم مخالف نعرے لگائے گئے۔انگریزی اخبار ‘دی انڈین ایکسپریس کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے بتایا ہے کہ منتظمین کو تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم اتوار کی شام تک پولیس نے اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ریلی کا اہتمام سپریم کورٹ کے وکیل اور دہلی ریاستی بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے نے کیا جس میں 100 سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والےو یڈیو میں لوگ نعرے لگا رہے ہیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اخبار نے اشونی اپادھیائے سے ‘’’بھارت جوڑو آندولن‘‘نامی اس تحریک کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی ، لیکن اخبار کو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل سکا۔
‘’’بھارت جوڑو آندولن‘‘کی میڈیا انچارج شپرا سریواستو نے کہا کہ نوآبادیاتی قوانین کے خلاف ایک مظاہرہ تھا جو برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں کو دبانے کے لیے بنایا تھا۔ ہم وہاں ان قوانین کے خلاف اور یونیفارم کی حمایت میں احتجاج کر رہے تھے۔ کیونکہ ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ ملک میں ایک ہی حکمرانی ہو۔ انہوں نے کہا کہ كمیرے علم میں وہاں کوئی ایسا (اشتعال انگیز) نعرہ نہیں لگایا گیا۔ وہاں 5000 لوگ تھے اور اگر ان میں سے 5-6 لوگ ایسے نعرے کسی کونے میں لگاتے تو ہم خود کو ان سے دور کرلیتے۔
جب اخبار نے نئی دہلی ضلع کے ایک سینئر پولیس افسر سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے ڈی ڈی ایم اے کی ہدایات کی وجہ سے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے (جو کہ کوویڈ پروٹوکول کے دوران جمع ہونے کی اجازت نہیں دیتا)۔ اور بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ اشونی اپادھیائے یہ پروگرام انڈور میں کرنا چاہتے ہیں۔ پولیس کا انتظام اس جگہ پر کیا گیا تھا۔ ہم نے سوچا تھا کہ تقریبا 50 لوگ وہاں آئیں گے لیکن اچانک لوگ وہاں چھوٹے گروپوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے لیکن جب وہ باہر جانے لگے تو انہوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے۔جب ڈی سی پی (نئی دہلی ضلع) دیپک یادو سے مبینہ نعرے والی ویڈیو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تمام ویڈیو کلپس کی تصدیق کر رہے ہیں۔تاہم انہوں نے جنتر منتر پر اتنے بڑے ہجوم کے جمع ہونے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔