عباس دھالیوال
گزشتہ 15 اگست کو طالبان قریب 20 سال بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نہ صرف داخل ہونے میں کامیاب ہوئے بلکہ صدارتی محل تک پہنچ گئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے قریبی ساتھیوں سمیت فرار ہو کر متحدہ عرب امارات میں پناہ لی جس کے نتیجے میں طالبان نے بنا کسی بڑے خون خرابے کے پر امن طریقے سے کابل کا کنٹرول ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کے بعد طالبان نے خدمات انجام دے رہے ملازمین کو اپنے اپنے سرکاری دفتروں میں حاضر ہونے کی ہدایت دی، ساتھ ہی افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر بیان میں افغانستان کے اندر اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام ’دا افغانستان اسلامی امارت‘ رکھا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ افغانستان پر امریکہ کے حملے سے پہلے بھی طالبان نے یہاں اسلامی امارت قائم کر رکھی تھی جسے انہوں نے 20 برس کے بعد دوبارہ سے بحال کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان 20 برسوں میں طالبان کے نظریات، رویوں اور افکار میں واضح تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ذبیح اللہ مجاہد کی کابل میں ہونے والی پہلی پریس بریفنگ سے بھی ہوا۔ پریس کے ساتھ ملاقات کے دوران مجاہد نے طالبان کے آئندہ کے لائحۂ عمل پر کھل کر بات کی۔ ماہرین کی جانب سے اسے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
پریس کانفرنس میں طالبان کے ترجمان نے مقامی اور عالمی میڈیا کے نمائندوں کے سخت سے سخت سوالات کا نہایت شستہ اور مدلل جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، طالبان کی اب کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کی سرزمین اب کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ طالبان سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ وہیں عالمی برادری ماضی میں خواتین سے طالبان کے رویے پر جس طرح سے تشویش اور شبہات میں مبتلا ہے، اس پر طالبان ترجمان نے کہا کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ میڈیا بھی آزادانہ طور پر کام کر سکے گا۔ دوسری طرف طالبان نے نیا سیاسی نظام تشکیل دینے کی غرض سے کوششیں تیز کر دی ہیں، دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ روابط بڑھانے کی کاوشیں بھی شروع کر دی ہیں۔ طالبان کے نائب امیر ملا عبد الغنی برادر بھی قطر سے افغانستان پہنچ چکے ہیں جبکہ طالبان رہنما انس حقانی نے افغانستان میں مصالحتی کونسل کے اراکین حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ادھر طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان کے حوالے سے کہا ہے کہ یہاں اس وقت کوئی آئین نہیں ہے۔ نیا آئین تیار کرکے منظور کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغانوں پر مشتمل نئی جامع حکومت کے قیام کے لیے بات چیت جاری ہے، نئی حکومت کے فریم ورک میں تمام افغان زیر غور ہیں۔
بوریل نے کہا کہ یوروپی یونین کی ترجیح یوروپی یونین کے عملے اور ان کے افغان مددگاروں کو کابل سے نکالنا ہے۔ ان کے مطابق، ’ہمیں کابل میں حکام سے رابطہ کرنا ہوگا۔ طالبان جنگ جیت چکے ہیں، لہٰذا ہمیں ان سے بات کرنی ہوگی۔۔۔۔ممکنہ نقل مکانی اور انسانی بحران کو روکنے کے لیے جلد ہی بات چیت شروع کرنا ضروری ہے۔‘
چین نے گزشتہ دنوں طالبان کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور ہر طرح کے تعمیراتی کاموں میں معاونت کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ عالمی میڈیا میں افغانستان کے مختلف صوبوں پر جب طالبان کے قابض ہونے کی خبریں آ رہی تھیں تو اس وقت طالبان کے ایک وفد نے چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ وہ روس کے بھی رابطے میں ہیں، ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی طالبان قیادت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ عالمی ردعمل دیکھتے ہوئے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یوروپی بلاک کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے کہا ہے کہ یوروپی یونین اقتدار میں طالبان کی واپسی کے بعد صرف اسی صورت میں ان کی حکومت کے ساتھ تعاون کرے گا جب وہ بنیادی حقوق بشمول خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے اور افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردوں کے استعمال سے روکیں گے۔ اس ضمن میں جوزف بوریل نے یوروپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد کہا کہ افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے یوروپی یونین افغان عوام کی مدد کرتا رہے گا، البتہ مستقبل کی کسی بھی افغان حکومت کے ساتھ تعاون پرامن اور جامع تصفیے سے مشروط ہوگا جس میں خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے احترام کے ساتھ ساتھ افغانستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام، بدعنوانی کے خلاف جنگ کا عزم اور دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا شامل ہے۔ بوریل نے تمام متعلقہ فریقوں پر زور دیا کہ وہ افغان خواتین، مردوں، ضرورتمند بچوں اور اندرونی طور پر بے گھر افراد کو انسانی ہمدردی کی امداد تک محفوظ اور بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دیں۔ان کے مطابق، ’یوروپی یونین طالبان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کریں۔ یوروپی یونین افغانستان کے پڑوسیوں پر موجودہ صورتحال کے منفی اثرات سے نمٹنے میں بھی مدد کرے گا جس کے متعلق توقع ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔‘
بوریل نے کہا کہ یوروپی یونین کی ترجیح یوروپی یونین کے عملے اور ان کے افغان مددگاروں کو کابل سے نکالنا ہے۔ ان کے مطابق، ’ہمیں کابل میں حکام سے رابطہ کرنا ہوگا۔ طالبان جنگ جیت چکے ہیں، لہٰذا ہمیں ان سے بات کرنی ہوگی۔۔۔۔ ممکنہ نقل مکانی اور انسانی بحران کو روکنے کے لیے جلد ہی بات چیت شروع کرنا ضروری ہے۔‘ ادھر ہندوستان کے معروف صحافی اور کالم نگار وید پرکاش ویدک نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’اگر کابل سرکار مضبوط اور مستحکم ہو تو افغانستان معدنیات کا بھنڈار ہے۔ وہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مالدار ملک بن سکتا ہے۔۔۔۔پچھلے 40 سال میں پہلی بار کابل میں ایسی سرکار بن سکتی ہے جو حقیقی معنوں میں خود مختار اور دیسی ہو۔‘ وید پرکاش ویدک کے مطابق،’طالبان ہندوستان کے دشمن نہیں ہیں، انہوں نے افغانستان میں ہندوستان کے تعمیراتی کاموں کا احسان مانا ہے اور کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ بتایا ہے۔ حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ ہمارے دوست ہیں۔ اگر وہ طالبان سے سیدھے بات کر رہے ہیں تو ہمیں کس نے روکا ہوا ہے؟‘ کل ملا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں ہو رہی اتھل پتھل آنے والے وقت میں جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک خصوصاً جن ملکوں کی سرحدیں افغانستان سے لگتی ہیں، ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی نئی افغان حکومت کی حکمت عملیوں سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے، یہ بات آج کی تاریخ میں سبھی پڑوسی ممالک کے عوام و حکمرانوں کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]