سی اے اے کی وکالت !

0

افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد افراتفری کے ماحول میں ہر ملک وہاں سے اپنے شہریوں کو نکالنے کیلئے کوشاں ہے۔ بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو وہاں سے نکال چکے اورجو بچ گئے ہیں، وہ آگے نکال لئے جائیں گے۔ اس طرح وہاں سے غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے پورے آثارنظر آرہے ہیں،لیکن سوال صرف غیرملکیوں کی وطن واپسی کا نہیں ہے،بلکہ ان افغانوں کا بھی ہے جو طالبان کے ڈرسے ملک سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ایک بارپھر دنیا کے سامنے پناہ گزینی کا مسئلہ سنگین ہورہا ہے۔افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بھی افغانوں کی ایک بڑی تعداد نے دوسرے ملکوں میں پناہ لی تھی ۔اب طالبان کے قبضے کے بعد پھر پناہ لینا چاہتے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں لوگ افغانستان کے باہر دوسرے ملکوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں ان افغانوں کے لئے بقول امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن راحت کی بات یہ ہے کہ دنیاکے 13ممالک نے ان کو عارضی پناہ دینے یا ان کی میزبانی کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ وہیں ہندوستان نے کہا ہے کہ وہ وہاں سے نہ صرف اپنے تمام شہریوں کو واپس بلائے گا بلکہ وہاں کی ہندواورسکھ آبادی کو بھی پناہ دے گا۔اب تو اس کی آڑ میں شہریت ترمیمی قانون کی سیاست بھی شروع ہوگئی ہے اوراس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سی اے اے کیوں ضروری ہے ؟
دراصل افغانستان سے 168لوگوں کو ایئرلفٹ کرکے جو طیارہ ہفتہ کی دیر رات ہندوستان پہنچا،اس میں ایک افغان سنیٹر اورایک افغان سکھ ممبرپارلیمنٹ سمیت 23 سکھ بھی آئے۔ یہاں آکر وہ کافی مطمئن نظر آئے اورحکومت ہند کا شکریہ ادا کیا۔ افغانستان کی صورت حال کے تناظرمیں سی اے اے کی وکالت کرتے ہوئے جہاں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے کہاہے کہ مرکزی حکومت نے پڑوسی ممالک کے ہندواورسکھ پناہ گزینوں کو آئینی حقوق فراہم کرنے کے لئے شہریت ترمیمی قانون بنایا ہے۔ان کاکہناہے کہ افغانستان، پاکستان اوربنگلہ دیش کے ہمارے ہندواورسکھ بھائی جنہوں نے ہندوستان میں پناہ لے رکھی تھی، انہیں آئینی تحفظ نہیں ملا، کئی برسوں تک سہولیات سے محروم رہے اوران کا استحصال کیا جارہا تھا۔ نریندر مودی سرکار نے سی اے اے کے ذریعہ انہیں قومی دھارے سے جوڑا۔ ادھر مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے افغانستان سے ہندوستان لائے گئے لوگوں کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ہمارے غیر مستحکم پڑوسی سے متعلق تازہ واقعہ اور وہاں کے سکھ اور ہندوجس برے وقت سے گزر رہے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ شہریت ترمیمی قانون لاگوکرناکیوں ضروری تھا۔ اس طرح انہوں نے بھی افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں سی اے اے کی وکالت کی اوراس کاجواز پیش کیا۔ سی اے اے بننے کے ڈیڑھ سال بعد پڑوسی ملکوں کے حالات سے سی اے اے کی کڑیاں جوڑی جانے لگیں اوراس کی سیاست بھی شروع ہوگئی۔
دسمبر 2019میں بنے شہریت ترمیمی قانون میں ملک کے 3پڑوسی ممالک افغانستان، پاکستان اوربنگلہ دیش میں ظلم کے شکار ہوئے ہندو، سکھ ، جین، بودھ، پارسی اورعیسائی کمیونٹیزکے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا التزام ہے۔ اس قانون سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے ، جس پر اس وقت تفریق کا الزام لگاکر اس کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک چلائی گئی تھی اور احتجاج ومظاہرہ کیا گیا تھا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ افغانستان کے تناظر میں سی اے اے کی بات ہوگی لیکن بات چلی ہے اورسیاست شروع ہوئی ہے تو دورتک ضرور جائے گی۔ اگلے سال اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے اس کاامکان ہے کہ افغانستان، طالبان اورسی اے اے پر ملک میں مثبت یا منفی نئی بحث چھڑ جائے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS