عبدالسلام عاصم
افغانستان کا اونٹ جلد یا بدیر پھر کروٹ بدلے گا۔ اس باربھی یہ تبدیلی کسی کے لیے باعثِ کلفت توکسی کیلئے موجبِ مسرت ہوسکتی ہے۔ ماضی قریب میں بہتر تبدیلی چاہنے والوں نے جب اپنے طور پر تنگ آمد بہ جنگ آمد کا مرحلہ گزار کر دست کشی کا راستہ اختیار کیا تھا تب بھی ایک حلقہ ناراض اور دوسرا بلیوں اچھلنے لگا تھا۔ نتائج پہلے بھی اچھے نہیں رہے اور اس مرتبہ تو خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کے حق میں کچھ زیادہ ہی خراب ہیں۔ اب کہ لیکن پہلی بار لڑکیوں نے تعلیم اور خواتین نے روزگار کے لیے سر سے کفن باندھ لیا ہے۔ معرکہ بہر حال آسان نہیں کیونکہ نوشتہ دیوارنہ پڑھنے والے بدستور اپنی تمام تر زیادتیوں کو اخلاقیات کے نفاذ کا نام دیتے چلے جا رہے ہیں۔
قطر ی شہر دوحہ میں افغانستان کے موضوع پر اس ہفتے ہونے والی بات چیت اگرچہ بہت زیادہ نتیجہ خیز نہیں رہی لیکن کسی نے بھی موجودہ افغان منظرنامے کو داخلی افغان مسئلہ قرار دینے سے اتفاق نہیں کیا۔یہ افغان عوام بالخصوص لڑکیوں اور خواتین کے اُسی تیور کا نتیجہ ہے جس پر دنیا حیران بھی ہے اور نازاں بھی۔ اس مذاکرے میں افغان حکومت کے نام پر سرکار سے زیادہ ہتھیار چلانے والے طالبان کی عدم شرکت محض ایک واقعہ نہیں، مستقبل کی ٹھوس تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کی غیر مبہم اور دوٹوک وجہ یہ ہے کہ طالبان کا کوئی بھی اجتماعی موقف انسانی رشتوں کے احترام کے عالمی معیار اور رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگ نہیں۔
طالبان کے موجودہ دور میں تو افغان خواتین کو اور زیادہ مخاصمت اور پابندیوں کا سامنا ہے لیکن وہ نہ صرف مزاحمت جاری رکھنے پر قادر ہیں بلکہ ان کا بدلا ہوا انداز امکان کے رُخ پر یقینی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے افغانستان میں بہتر تبدیلی چاہنے والوں کے درمیان ایک واضح بحث یہ جاری ہے کہ خواتین ہم وطنوں میں سے کسی ایسی ممتاز شخصیت کو نوبل امن انعام کی حقدار قرار دیا جائے جس نے کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے سے پہلے سرکاری عہدوں پر فائز رہ کر بہتر کام انجام دینے سے زیادہ خواتین کے حقوق کے کارکنوں کی حمایت میں سرگرمی دکھائی ہے۔ ان میں جلا وطن خواتین بھی شامل ہیں۔ ایسے ناموں میں 17 سالہ فاطمہ امیری کا بھی ذکر آیا جو گزشتہ سال 30 ستمبر کو کابل میں ایجوکیشنل سینٹر میں بم دھماکے میں بچ گئی تھی۔ اس حملے میں درجنوں طالب علم مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر لڑکیاں تھیں جو تمام تر نامساعدات کے باوجود افغانستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے امتحان دینے کی خاطر ایک نجی اسکول میں جمع ہوئی تھیں۔
اگر مہذب دنیا سب کو اپنے طور پر جینے کا حق دینے کے نام پر زیادتیوں کو بھی تسلیم کرتی تو دنیا کے غیرمہذب معاشروں میں کبھی کوئی انقلاب نہیں آتا۔ دنیا کسی ایسے مینول کی پابند نہیں جو رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کے پاکستانی اور چینی وزرائے خارجہ سے ملاقات کیلئے اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اگر امکانی رُخ پریہ دورہ اہمیت کا حامل نظر نہیں آتا تو کونسل اس کی اجازت دینے سے اتفاق نہیں کرتی۔ خبررساں ایجنسی رائٹر کی اطلاع کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن نے درخواست کی تھی کہ 6 اور 9 مئی کے دوران مسٹر متقی کو سفر کی اجازت دی جائے۔ سلامتی کونسل نے ایسا پہلی بار نہیں کیا۔ گزشتہ مہینے بھی مسٹر متقی کو ازبکستان جا کر وہاں ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ سے امن، سلامتی اور استحکام رُخی ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔
قومی، علاقائی اور عالمی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ایک دوسرے سے راست اور بالواسطہ طور پر جڑے تانے بانے کا بے لاگ جائزہ لینے والوں کے لیے افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات انتہائی تکلیف دہ ہی نہیں سخت موجب تشویش ہیں۔ اس کی ایک نمایاں وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں انسانی رشتوں کی جو پامالی ہو رہی ہے اس کی دور تو دور نزدیکی ہمسایوں اور ہم مذہب معاشروں میں بھی اجازت نہیں۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کرنے والوں کو اندیشہ ہے کہ افغانستان میں آئندہ نسل کے لیے صورت حال اور زیادہ خراب ہوسکتی ہے کیونکہ ملک میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے روزگار میں خلل سے انسانی زندگیوں کو جو خطرات لاحق ہوں گے، ان کے نتیجے میں افغانستان میں خواتین اور بچوں کی صحت کی سائنٹفک دیکھ بھال کرنے والوں کی طویل مدتی کمی پیدا ہوتی ہی چلی جائے گی۔
افغان لڑکیاں اور خواتین جس قدر تیزی سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم کی جا رہی ہیں، وہ انتہائی تشویشناک ہے اور فوری طور پر اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ حالیہ مہینوں میں افغان خواتین کو زندگی کے تمام سرگرم شعبوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ قومی پالیسی سازی میں اب ان کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا۔ ایسا نہیں کہ طالبان نے بڑی مشکل سے یومیہ زندگی کا رُخ معکوس سمت میں موڑا ہے۔ انہیں اس کام کو تیزی سے عمل میں لانے میں کامیابی اس لیے ملی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے انقلابی تبدیلی کے نام پر کام سے زیادہ باتیں کیں۔ صنفی مساوات اور پالیسی سازی میں خواتین کی نمائندگی ماضی قریب میں بھی اطمینان بخش نہیں رہی اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ طالبان نے آتے ہی ایسے تمام پلیٹ فارم ختم کر دیے جو خواتین کی معاونت کیلئے تھے۔
ایسے میں افغانستان میں جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس بات کا سرِدست کوئی امکان نہیں کہ طالبان سرکاری فیصلہ سازی اور تعلیم وصحت عامہ کی پالیسیوں بشمول خواتین کی تعلیم اورصحت سے متعلق فیصلوں میں خواتین کے کسی بھی نقطہ نظر کی مناسب نمائندگی کا نظم کریں گے۔ واقعات اور سانحات بتاتے ہیں کہ افغانستان میں عدم استحکام اور تشدد کے علاوہ غریبی، صنفی امتیاز اور دوسری سہولتوں کی کمی کی وجہ سے صحت خصوصاً بلوغت کی دہلیز پار کرنے والی لڑکیوں کی دیکھ بھال کا دائرہ سوویت عہد کے بعد گزرنے والی دہائیوں میں محدود سے محدود تر ہوا ہے۔ اس کے ڈھیروں اسباب میں بنیادی سبب یہ ہے کہ افغان خواتین کو تعلیم کا جو حق سوویت عہد میں حاصل تھا، اسے طالبان کو بے دخل کرنے کے بعد کے عہد میں کامل طور پر بحال نہیں کیا جا سکا۔
حالات کے تازہ موڑ پر اکثر پوچھا جاتا ہے کہ تاریک ماضی سے رجوع کرنے میں بظاہر کامیاب افغان طالبان سے ہندوستان کس طرح معاملات کرے گا جو ایک ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے بھی تکنیکی اور اقتصادی تعاون کے محاذ پر اتنا آگے نکل چکا ہے کہ فوجی اور غیر فوجی شعبوں میں دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد کئی ملکوں کے دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کو تربیت دے چکا ہے۔ اس امر سے بھی دنیا بخوبی واقف ہے کہ ہندوستان نے گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کی تعمیر نو کی کوششوں میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ دو مختلف ڈیموں کے درمیان 218 کلومیٹر سڑک کے علاوہ افغان پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر کی جس کا افتتاح 2015 میں ہوا تھا۔ واضح رہے کہ ہندوستان نے افغانستان میں تعلیم کے شعبے میں بھی بے پناہ شراکت کی تھی اورحقیقی اور سائنسی خطوط پر افغان اساتذہ اور معاون عملے کی تربیت میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ وقت آگیا کہ ترقی رُخی سوچ رکھنے والے ہمسائے و علاقائی اور عالمی طاقتیں افغانستان میں حقیقی تعلیم سے نئی نسل خصوصاً خواتین کی وابستگی کا دائرہ بڑھانے کی تمام تر حکمت عملی بروئے کار لائیں تاکہ جدو جہد کرنے والوں کو انقلابی وسائل کی قلت کا سامنا نہ ہو۔ عصری منظر نامے میں یہ ایک خوش امیدی ہے جسے پالے بغیر جینا مثبت فکر رکھنے والوں کیلئے آج بھی ناممکن ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]