نئی دہلی،(یوا ین آئی):جامعہ ملیہ اسلامیہ محض ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک ادبی و تہذیبی گہوارہ اور گنگا جمنی کلچر کا سفیر بھی ہے۔ یہ بات جامعہ کی ۱۰۱ویں یومِ تاسیس کے موقع پر منعقدہ تقریبِ مشاعرہ میں شیخ الجامعہ پروفیسر نجمہ اختر نے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ اس ادارے کا قیام جنگِ آزادی کے عظیم رہنماؤں کے خونِ جگر سے ہوا ہے۔ سچی آزادی کا جذبہ، روشن خیالی، جمہوری اور سیکولر اقدار اور جدید تقاضوں پر مبنی انسانی اقدار سے ہم آہنگ تعلیمی نظام جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وژن اور مشن رہا ہے۔
مشاعرے کے صدارتی کلمات میں مشہور ادبی و ثقافتی تنظیم جشنِ بہار ٹرسٹ کی روحِ رواں کامنا پرساد نے کہا کہ مشاعرہ اپنے آپ میں ایک مہذب اور منظم تہذیبی ادارہ ہے۔ نشست و برخاست، گفت و شنید، شعر خوانی، داد و تحسین، شعرا اور سامعین کے درمیان ادبی و تخلیقی رابطہ، زبان و بیان اور پیش کش جیسے عناصر مشاعرے کے وہ مظاہر ہیں جن سے ایک مہذب اور شائستہ معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ ہندی کے مشہور فکشن نگار اور ڈرامہ نگار پروفیسر اصغر وجاہت نے بحیثیت مہمانِ خصوصی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاعری جینا سکھاتی ہے اور زندگی کا حوصلہ بخشتی ہے۔غالب نے یوں ہی نہیں کہا کہ:
تاب لائے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
اگر زندگی سے شعر و ادب کو نکال دیا جائے تو انسان محض ایک مشین اور زندہ لاش بن کر رہ جائے گا۔
کنوینر مشاعرہ پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ تقریر میں کہا کہ اردو اور جامعہ لازم و ملزوم ہیں۔ یومِ تاسیس کے موقع پر جامعہ میں معیاری اور باوقار مشاعروں کی روایت ابتدا سے قائم ہے اور اس زریں سلسلے کو موجودہ شیخ الجامعہ پروفیسر نجمہ اختر نے پوری آب و تاب کے ساتھ بحال رکھنے میں قابلِ تحسین اقدام کیا ہے۔
یومِ تاسیس کا یہ مشاعرہ جامعہ کے شان دار اور وسیع ایم اے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، جہاں طویل عرصے کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں باذوق سامعین شریک ہوئے۔ اس مشاعرے کا ایک امتیاز یہ بھی رہا کہ اس وبائی آشوب کے دوران دہلی کی آنکھوں نے یہ پہلی آف لائن اور بارونق بزم دیکھی۔ اس مشاعرے کے انعقاد میں وائس چانسلر کے پی اے اور مشہور ترجمہ نگار ڈاکٹر اے نصیب خان نے اہم کردار ادا کیا۔ نظامت کے فرائض معین شاداب نے انجام دیے اور مشاعرے کا اختتام ڈاکٹر رحمان مصور کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔ مشاعرے میں شریک ممتاز شعرا کا نمونہئ کلام ملاحظہ ہو:
گزاری رات جن کی جستجو میں
جو دن نکلا تو شہپر سو گئے ہیں
(شہپر رسول)
عزائم آج جن کے سرنگوں ہیں
انھیں شبیر ہونا چاہیے تھا
(سہیل احمد فاروقی)
کیا مفت ہے یہ سودا جو چاہے اس گلی میں
جاں نذر لے کے جائے دیدار کرکے لوٹے
(احمد محفوظ)
ہوا چراغ بجھاتی ہے تم بھی یوں کر لو
چراغ ایسے جلاؤ ہوا ہوا ہوجائے
(کوثر مظہری)
یوں تو ایک جگنو ہی تیرگی کوکافی ہے
پھر بھی ایک جگنو کو روشنی نہیں کہتے
(ایم آر قاسمی)
(نظم) ریگزاروں کے آنگن/ دور ایک مذبح ہے/ بھیڑیں ہیں سب آزردہ/ چپ نڈھال بیٹھی ہیں / روٹیاں خمیری ہیں / چون اور چوکر ہیں / دودھ کے ہیں دو پیالے/ دھوپ میں ابلتے ہیں
(اے نصیب خان)
اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
(معین شاداب)
مرغ اور مچھلی کو چھونے سے جنھیں پاپ لگے
ان کے ہاتھوں میں بھی بھالے ہیں خدا خیر کرے
(احمد علوی)
حاکمِ وقت کو معلوم نہیں ہے شاید
ظلم بڑھتا ہے تو سرکار بھی گر جاتی ہے
(اعجاز انصاری)
جو وقت مہرباں ہوا تو خار پھول بن گئے
خزاں کی زرد زرد سی قبا ہی اور ہوگئی
(علینا عترت)
میرے کمرے میں صرف کاغذ ہیں
میں چراغوں سے خوف کھاتا ہوں
(رحمان مصور)
خواب اب کے نہ حقیقت ہو جائے
اب کے ایسی ہے مِری شدتِ خواب
(خالد مبشر)
چاہے بھی کسی بھی دین کے یا پھر زباں کے ہیں
دنیا مگر یہ جان لے ہندوستاں کے ہیں
(راجیو ریاض پرتاپ گڑھی)
ان کے علاوہ ضیا علوی اور اپرنا دکشت نے بھی اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
جامعہ کے یوم تاسیس کے موقع پر مشاعرے کا انعقاد، وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کا بیان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS