انصاف سے ہوں گے داغ صاف

0

سیاست میں بڑبولا پن کتنا بھاری پڑسکتا ہے، اس کی سب سے تازہ مثال ہیں مرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ اجے مشر ٹینی۔ وزیر جی تقریباً ایک پکھواڑے پہلے اترپردیش کی پلیا اسمبلی کے ایک قصبہ میں جلسہ عام کو خطاب کرنے پہنچے تھے۔ جلسہ عام کے راستہ میں کسانوں نے مخالفت کردی تو وزیر جی اتنے ناراض ہوئے کہ جلسہ کے اسٹیج سے ہی دو منٹ میں مخالفین کو پست کرنے والی اپنی پرانی ’پہلوانی‘ پہچان کا حوالہ دے ڈالا۔ ساتھ میں کسانوں کو دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر انہوں نے چیلنج قبول کرلیا تو انہیں پلیا ہی نہیں، لکھیم پور بھی چھوڑنا پڑجائے گا۔
اب دیکھئے ہوکیا رہا ہے۔ بیٹے کی گرفتاری سے اور اپنی وزارت کے عہدہ کو استعفیٰ سے بچانے کے لیے اجے مشر خود پلیا ہی نہیں، لکھیم پور تک چھوڑ کر دہلی کی دوڑ لگارہے ہیں اور مخالفین ہی نہیں، اپنی ہی پارٹی والے کہہ رہے ہیں کہ اب تو سدھر جاؤ۔ وجہ ہے لکھیم پور کھیری میں ہنگامہ آرائی اور تشدد میں 9لوگوں کی اموات، جس کے بعد اترپردیش کی سیاست میں طوفان مچا ہوا ہے اور لکھنؤ سے دہلی تک بی جے پی کو انصاف کرنے کی دہائی دینی پڑرہی ہے۔ پورے تنازع کی جڑ بنے ہیں اجے مشر ٹینی جن کا بیٹا آشیش مشر چار کسانوں کو گاڑی سے کچل کر موت کے گھاٹ اتارنے کے سنگین فعل کا اہم ملزم بنایا گیا ہے۔ یعنی جس کے والد کے کندھوں پر ہی ملک میں قانون پر عمل درآمد کی ذمہ داری ہے، اسی بیٹے پر کھلے عام ملک کے قانون کی دھجیاں اڑانے کے معاملہ میں انگلی اٹھ رہی ہے۔
پورا واقعہ ویسے بھی قابل مذمت ہے اور وزیر سے منسلک ہونے کے سبب سیاسی بھی بن گیا ہے۔ کانگریس اور سماجوادی پارٹی سے لے کر ترنمول کانگریس اور شرومنی اکالی دل جیسی دوسری ریاستوں میں سرگرم علاقائی پارٹیاں تک متاثرہ کنبوں کے درمیان اپنی موجودگی درج کرانے کا مقابلہ کرتی نظر آرہی ہیں۔ اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے ایسا کرنا ان پارٹیوں کی معاشرتی- سیاسی ذمہ داری بھی ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ریاست اور مرکزی حکومت پر ہورہے چوطرفہ حملوں کی ایک وجہ اترپردیش میں آنے والے دنوں میں ہونے والے اسمبلی الیکشن بھی ہیں۔
حالاں کہ تنازع بڑھنے کے باوجود مودی-یوگی حکومتیں اور بی جے پی تنظیم نے محتاط اور نپے تلے انداز میں قدم اٹھائے ہیں۔ یوگی حکومت نے اس معاملہ میں جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متاثرین کو معاوضہ دینے کا اعلان کرکے مخالفت کی آگ کو کافی حد تک قابو میں کرلیا ہے۔ ساتھ میں شروعاتی بندشوں کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کو لکھیم پور کھیری جانے کی اجازت دے کر یہ بھی طے کردیا ہے کہ اس معاملہ میں اپوزیشن کے مزید سیاست کرنے کے مواقع آنے والے وقت میں محدود ہوتے چلے جائیں گے۔
فوری طور پر مؤثر نظر آرہی اس سیاسی ورزش کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اس واقعہ نے بی جے پی کی تشویش میں حد سے زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ پارٹی قیادت بھلے ہی اوپر سے پرسکون نظر آنے والے سمندر کی تصویر پیش کررہی ہو، لیکن سطح کے نیچے کافی کھلبلی مچی ہوئی نظر آرہی ہے۔ چار ماہ بعد اترپردیش میں الیکشن ہونے ہیں۔ ایک طرف مرکز میں وزیراعظم نریندر مودی اور ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلسل ریاست کی ترقی کا روڈمیپ اور اپنی حکومت کی حصولیابیوں کو لے عوام کے درمیان پہنچ رہے ہیں، وہیں اس واقعہ میں پارٹی کے ہی ایک وزیر کے بیٹے کے مبینہ طور پر ملوث ہونے سے عوام کے درمیان جو پیغام گیا ہے، اسے پارٹی کی صحت کے لیے اچھا نہیں سمجھا جارہا ہے۔ اے بی پی-سی ووٹر کا تازہ سروے اس جانب ایک اشارہ ہے جس میں شامل 70فیصد لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ لکھیم پور معاملہ سے بی جے پی کو نقصان ہوا ہے۔
اندرون خانہ کی خبر یہ ہے کہ بی جے پی تنظیم کے ساتھ ساتھ سنگھ میں بھی اس واقعہ سے متعلق کافی ناراضگی ہے۔ کورونا وبا کے دوران ریاست کے عوام کو ہوئی پریشانی اور اس سے پیدا ہوئے غصے کو کم کرنے کے لیے سنگھ اپنے کارکنان کے ذریعہ طویل عرصہ سے ریاست میں سرگرم ہے۔ سنگھ کی اس سرگرمی سے لوگوں کا غصہ کافی حد تک کم ہوا ہے، لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وقوع پذیر ہوئے دو بڑے واقعات نے بی جے پی کو الیکشن سے پہلے بڑا جھٹکا دیا ہے۔ پہلے کانپور کے کاروباری کے گورکھپور میں قتل کے معاملہ میں یوپی پولیس کا مشتبہ کردار اور اب لکھیم پور کھیری میں ایک وزیر کے بیٹے کا ہاتھ سامنے آنے سے اس پوری محنت کے نتیجہ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
سنگھ ہمیشہ سے ہر طرح کے کام کاج میں شفافیت کا حامی رہا ہے اور وقت وقت پر اس بابت حکومت کو آگاہ بھی کرتا رہا ہے۔ اپنی سطح پر حکومت بھی اس معاملہ میں احتیاط برتتی آئی ہے، لیکن اس معاملہ میں دیکھیں تو کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے۔ اجے مشر ٹینی کے پرانے ریکارڈ کھنگالنے کی بات ہو یا اس معاملہ میں ابتدا میں ہوئی ٹال مٹول، یہ وہ لاپروائیاں ہیں جنہیں ٹالا جاسکتا تھا۔
اب اپوزیشن پارٹیاں بالخصوص کانگریس سپریم کورٹ کے تبصروں کو بنیاد بنانے کے ساتھ ہی الٰہ آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا ایک معاملہ کا حوالہ دے کر اجے مشر کے بہانے بی جے پی کو کٹہرے میں کھڑا کررہی ہے۔ کانگریس نے اجے مشر پر قتل کے ایک پرانے معاملہ کو 17سال تک درج نہ کرنے اور اب ساڑھے تین سال سے فیصلہ محفوظ ہونے کے باوجود فیصلہ نہ آنے پر سوال اٹھائے ہیں۔ توہین عدالت کا خطرہ مول لیتے ہوئے کانگریس اتنا آگے بڑھی ہے تو اس سے اپوزیشن کے اندر اس معاملہ کو ابھی اور آگے لے جانے کی بے چینی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ لکھیم پور کھیری کے واقعہ کا اثر یہ ہوا ہے کہ کسان تحریک اب مغربی اترپردیش سے نکل کر روہیل کھنڈ اور وسط یوپی تک پہنچ گئی ہے۔ اپوزیشن اب اسے بندیل کھنڈ اور پوروانچل تک لے جاکر اسے پورے اترپردیش کا ایشو بنانے میں مصروف ہوگئی ہے۔
جمہوریت میں حکومتیں مقبولیت سے چلتی ہیں اور صرف انصاف کرنا کافی نہیں ہوتا، انصاف کرتے نظر آنا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ اب صوبہ اور مرکز کی حکومتوں کے سامنے یہی چیلنج ہے۔ مافیا اور قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کے ساتھ ویسے بھی مرکز کی مودی حکومت اور اترپردیش کی یوگی حکومت سختی سے پیش آتی رہی ہیں۔ اس معاملہ میں بھی اہم ملزم آشیش مشر کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے، جب کہ اس کے وزیروالد کو دہلی طلب کرکے ان سے بھی صفائی طلب کی گئی ہے۔ حکومت یا تنظیم سے وابستہ ہر شخص کو متنازع بیان اور ویڈیو سے بچنے کی سخت ہدایت دے دی گئی ہے۔ اچھا ہوگا اگر اس معاملہ کو مثال بناکر سیاست میں شفافیت کی ایسی روایت بھی شروع کردی جائے، جس میں قانون سے کھلواڑ کے داغ لگے شخص کو گورننس سسٹم سے جڑے کسی بھی لیول کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔ ویسے موجودہ انتظامیہ میں اس خیال کے تئیں پہلے سے بھی کافی حمایت موجود ہے اور یہ شاید اسی سوچ کے دباؤ کا نتیجہ ہے کہ پہلے نوٹس کو نظرانداز کرنے کے بعد اہم ملزم آشیش مشر کو دوسرے نوٹس پر کرائم برانچ کے سامنے پیش ہونا پڑا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس معاملہ میں بھی انصاف ضرور ہوگا۔ بس سوال اس انصاف تک پہنچنے کے وقت کا ہے، کیوں کہ ہر گزرتا لمحہ شبہ کی آنچ اور سوالات کی آگ کو تیز کررہا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS