عبدالسلام عاصم
جس طرح یہ حق اتفاق کی شرط سے مشروط نہیں کہ برائی ہمیشہ اچھائی سے بدلتی ہے، اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ جو برائی اچھائی کے فرضی علم برداروں کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اس کی کوکھ سے ایک نئے لیبل کے ساتھ برائی ہی جنم لیتی ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور موجودہ منظر نامہ بہ اندازِ دیگر ایسی ہی تبدیلی کا ترجمان ہے۔
چونکہ موجودہ حالات کم و بیش ایسے ہی سابقہ حالات کا دوسرا روپ ہیں، اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ اب برسوں یا دہائیوں میں جو تبدیلی آئے گی، وہ کم از کم اُس وقت تک کے لیے بہتر رُخ پر ہوگی جب تک نئی بد اعمالیوں کے نتائج دوبارہ مرتب نہ ہونے لگیں۔ گویا درمیاں میں ایک اچھا خاصہ وقفہ آئے گا جس میں نئی تبدیلی کے ساتھ حقیقی علم کے فروغ کو نظریاتی تعلیم پر فوقیت دی گئی تو عجب نہیں کہ یوروپ کی تاریخ یہاں بھی دہرائی جائے اور تمام نظریاتی حلقے دوسروں کے لیے موجبِ خلل بنے بغیر اپنی محدود دنیا میں اپنے طور سے جینے کے عادی ہوجائیں۔
ہر چند کہ بھارت جوڑو یاترا بھی سابقہ یاترا کی طرح بظاہر اقتدار رخی ہے لیکن یہ یاترا ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب ایک سے زیادہ حلقوں کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ماضی قریب میں جو تبدیلی مقصود تھی وہ نہیں آ سکی اور اب جو تبدیلی مطلوب ہے، وہ بھی کوئی مسیحا آسمان سے لے کر نہیں آئے گا۔ بہ الفاظ دیگر سیاسی راستے سے گزر کر ہی ایک ایسی تبدیلی سامنے لانا ہوگی جو سابقہ موقع کی طرح کاسمیٹک نوعیت کی نہ ہو۔ یعنی اب کسی بھی تبدیلی کو نظریاتی اور جذباتی طور پر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں سماجی اور اقتصادی سطحوں پر استحکام بخشنا ہوگا۔
ایسا نہیں کہ کانگریس کو صرف بی جے پی سے سیاسی اور نظریاتی مقابلہ کرنا ہے۔ سیکولر خیمے بدستور کانگریس کی طرف سے اندیشے پال کر ہی آئندہ کے معاملات کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو عام آدمی پارٹی کے امیر کو یہ تجویز پیش کرنے کی ضرورت ہرگز پیش نہیں آتی کہ کرنسی نوٹوں کو بہ اندازِ دیگر بابرکت بنایا جائے۔ دراصل وہ اس طرح کے مذہبی نسخے بیچ کر ایک علاقائی سیاسی جماعت کی ریاستی حکومتوں کا جال دور تک پھیلا کر مرکز میں آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح مغربی بنگال میں ممتا جی کی سیاست، بہار کی نئی جگل بندی اور یو پی میں سماج اور بہوجن سماج کی سیاست بدستور محدود مفادات میں جکڑی نظر نہیں آتی ہے۔
2024 کے عام انتخابات کے نتائج حکمراں اور اپوزیشن دونوں حلقوں کو چونکائیں گے تو ضرور لیکن اس بابت قطعیت سے کچھ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ تبدیلی تختہ پلٹ ہوگی یا بس تخت ہل کر رہ جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی ماننے والے ووٹر جاننے والوں سے زیادہ ہیں۔ اس فرق کی سراسر ذمہ دار بھی کانگریس ہے جس نے زائد از نصف دہائی سیکولرازم کو فروغ دینے سے زیادہ اسے بھنانے پر توجہ دی اور پھر ایک مرحلے پر تیز آنچ میں سب کچھ نہیں تو بہت کچھ جل گیا۔
بھارت جوڑو یاترا ایک ایسے موڑ پر شروع کی گئی ہے جب وہ لوگ جو اقتدار میں ہیں، اقتدار بچائے رکھنے کے لیے سرگرم ہیں اور جو اقتدار بدر پھر رہے ہیں، وہ اقتدار میں واپسی کے لیے ایک دوسرے کے راگ کو اپنے طریقے سے الاپ کر سامعین کو کنفیوز کرنے میں لگے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی قیادت نے بھی اسی کا ثبوت دیا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کی بعض تصاویر کے کیپشن بھی نئے ناظر کے سامنے سے ہٹا دیے جائیں تو وہ یاترا کی نوعیت سمجھنے میں چکرا جائے گا۔ باوجودیکہ کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کا بدلا ہوا انداز تاریکی میں امید کی کرن کی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ نفرت کی سیاست سے آلودہ ماحول میں جہاں اندیشوں کی تجارت کی منڈیاں دور دور تک پھیلا دی گئی ہیں، وہاں امکانات کے رُخ پر بات کرنے والے مٹھی بھر لوگ کس قدر اثر انداز ہو پاتے ہیں۔
ایک سیاسی تبدیلی اس لیے بھی ناگزیر ہوگئی ہے کہ قومی معاشرہ دینی علوم اور دھارمک شکشا کے نام پر نظریاتی تعلیم سے شدید طور پر متاثر ہے۔ ایک سے زیادہ مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اس معاشرے کو خوشگوار طور پر روادار نہیں تو کم از کم قابل برداشت بنانا اب نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسائل حل کرنے کے نام پر اس کا دھندہ کر نے والوں میں اب وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جن سے امید مسیحائی تھی۔میرا دوٹوک اشارہ میڈیا کے اُس حلقے کی طرف ہے جس کا کردار حالیہ دہائیوں میں کچھ اس طرح بدلا ہے کہ وہ پس پردہ آگ لگا کر بر سرِ منظر آگ بجھانے والوں میں بھی اپنا نام سر فہرست دیکھنا چاہتا ہے۔
قومی، علاقائی اور ذاتی نوعیت کے برقی نیوز چینلوں اور سوشل اسٹیجوں پر اِن دنوں دو حلقے بری طرح متصادم ہیں۔ ایک حلقہ مذاہب پر رات دن بے ہنگم نکتہ چینی کرنے والوں کا ہے، جنہیں اُن کے سعی رائیگاں کا احساس دلایا جا نا چاہیے اور دوسرا حلقہ بعض ایسے اہلِ مذاہب کا ہے جو ایک دم سے مقابلے پر آ کر موجب خجالت حرکتوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ انہیں اس سے بچانا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ دونوں نیک کام بہرحال اُس وقت تک ڈھنگ سے نہیں کیے جا سکتے جب تک اِن دونوں حلقوں کو لڑانے کے لیے دنگل کی فیس کے ساتھ اسٹیج سجانے والے اخباری مافیا اپنے دھندے کا رخ کسی تعمیری کام کی طرف نہیں موڑتے۔ ان مافیاؤں کو خبر کی سرخی اور متن کو مربوط کرنے سے کوئی غرض نہیں۔ یہ تو بس پیکیجنگ پر ساری توجہ مرکوز کر تے ہیں اور مال بیچ کر نکل جاتے ہیں۔
اخبارات کے ایک بلکہ ایک بڑے حلقے کو فکری طور پر اس قدر آلودہ کردیا گیا ہے کہ وہ خبر کو کسی طرح خبر رہنے دینے کو تیار نہیں۔ رہی سہی کسر بعض کالم نگار پوری کر دے رہے ہیں۔ عوام کی توجہ درپیش بنیادی مسائل کی طرف سے ہٹا کر اُن کے ذہن کو فروعی معاملات میں الجھا دینے کا سابقہ سلسلہ آج زیادہ بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کل بھی اس دھندے میں خام مال کی طرح استعمال ہوتی رہی تھی اور آج بھی اُس کی نمائندگی کی دکان چلانے والوں کو اسی کام پر مامور رکھا گیا ہے۔ میڈیا کا کردار انتہائی تشویشناک ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں کچھ اس طرح کی ایک سُرخی نظر سے گزری کہ ’’مدارس کے بنیادی نصاب میں تبدیلی خارج از امکان‘‘ متن میں کہیں کسی تبدیلی کی سرکاری ہدایت، عدالتی حکم یا روشن خیال حلقوں کے مشورے کا ذکر نہیں تھا۔ رہ گئی بات نصاب کی توسیع کی، تو اس رُخ پر کسی مشورے کے خلاف کسی سخت بیان کی مطلق کوئی ضرورت نہیں۔ جانکاروں کو خوب پتہ ہے کہ ایسے بیانات اکثر دیے نہیں دلوائے جاتے ہیں اور پھر سرخیاں ایسی سنسنی خیز لگادی جاتی ہیں کہ عام پڑھنے والے اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔
کون ہیں یہ لوگ جو صحافت کے پیشے کو اس طرح بدنام کر رہے ہیں! یا صحافیوں کو اس راہ پر لے جانے کے ذمہ دار کون لوگ ہیں!! جواب پوشیدہ نہیں، واضح ہے۔ مذکورہ دونوں حلقوں کے کرتا دھرتا ہی اس خطرناک سلسلے کے متحرک ذمہ داران ہیں۔ دونوں حلقوں کو اپنی وکالت کرنے والے ایسے پیشہ ور وکلاء مطلوب ہیں جو ڈرامے اسٹیج کرنے کی ساحرانہ مہارت رکھتے ہوں۔ ایسے تمام ڈراموں کے ٹکٹ زیریں متوسط طبقے میں زیادہ فروخت ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح اُنہیں سستی تفریح مل جاتی ہے۔ اپر مڈل کلاس کے لوگ اس صورتحال سے غیر متفق تو ہیں لیکن اُن کی طرف سے اب تک ایسا کوئی بے نقص میکانزم سامنے نہیں آیا جس کا تجربہ اہلِ یوروپ ایک صدی قبل کرچکے ہیں۔
دیکھنا ہے کہ اِس ماحول میں امکانی رُخ پر کسی تبدیلی میں قومی سیاست کے کردار کو صحتمند بنانے کی کوشش کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ کانگریس کو ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے جس میں اقتدار کی منزل سے پہلے ایسے کئی پڑاو آئیں گے جہاں وقتی کامیابی اور وقتی ناکامی دونوں بالترتیب رجائیت اور قنوطیت پسندی کو تحریک دے کر گمراہ کر سکتی ہیں۔ ایسے موڑ پر آگے کے راستے کا صحیح انتخاب منزل کی راہ آسان کر سکتا ہے اور غلط انتخاب مسافت کو لمبی بنا سکتا ہے۔ تبدیلی بہرحال آکر رہے گی کیونکہ آج بھی ثبات ایک تغیر ہی کو ہے زمانے میں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]