محمد عباس دھالیوال
اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ مختلف نامی چینلز کی فضول قسم کی بے بنیاد رپورٹنگ، مذہبی مباحثوں کے سبب ملک کو بعض اوقات عالمی سطح پر شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔افسوس کہ میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، وہ ملک کے عوام و حکام کو سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے فضول قسم کے بے بنیاد موضوعات پر مباحثے کروا کر لوگوں کا ذہنی استحصال کرتا ہے۔
بیشتر چینلس ملک کے بڑے ایشوز جیسے بے روزگاری، مہنگائی، غریبی و بھکمری پر مباحثے کروانے سے تو جیسے جی چراتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے بر عکس اکثر چینلوں کا ٹارگیٹ مندر مسجد تنازعات تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے دیکھا کہ ایک مباحثہ کے دوران بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے منہ سے رسول اکرمؐ اور اُم المومنین حضرت عائشہؓکی شان میں کچھ ایسے نازیبا الفاظ نکلے کہ ان کو لے کر پوری دنیا خصوصاًمسلم ممالک میں ایک کہرام سا برپا ہو گیا۔ نوپور شرما اور نوین کمار جندل کی طرف سے پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفیؐ سے متعلق گزشتہ دنوں دیے گئے متنازع بیانات پر مسلم ملکوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں احتجاج کرنے والے ملکوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ادھر معاملہ کو طول پکڑ تا دیکھ بی جے پی کی جانب سے اپنے مذکورہ رہنماؤں کو پارٹی سے برطرف کر دیا گیا ہے، ساتھ ہی حکومت کی جانب سے یہ وضاحتی بیان بھی جاری کیا گیا ہے کہ بھارت تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔
خارجہ امور کے مختلف ماہرین، مبصرین اور تجزیہ کار مذکورہ مسئلہ کے حوالے سے جو آرا رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں الگ الگ اخباروں میں ان کے مختلف مضامین شائع ہو رہے ہیں۔
اس ضمن میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی نے2014 میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مسلم ملکوں کے دورے کرکے اور وہاں کی قیادت سے ملاقاتیں کرکے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا جس کے نتیجے میں ان ملکوں میں نریندر مودی کی مقبولیت اور باہمی تجارت میں کافی اضافہ ہوا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق خلیجی ملکوں سے بھارت کے بہت اچھے تجارتی تعلقات رہے ہیں۔اس ضمن میں سال 2020-21 میں خلیج تعاون کونسل کے چھ ملکوں کے ساتھ بھارت کی تجارت میں اضافہ ہوا اور اس نے110.73 ارب ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ جن میں سب سے زیادہ سعودی عرب سے43ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں۔ بھارت قطر سے سب سے زیادہ لیکویفائڈ نیچرل گیس(ایل این جی) درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے85ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ میں کم از کم دو تہائی حصہ خلیجی ملکوں کا ہے۔ اسی طرح خلیج تعاون کونسل سے بھارت کا آزاد تجارتی معاہدہ ہونے والا ہے لیکن مذکورہ واقعہ سے خلیجی ممالک میں زبردست غم و غصہ کی لہر پائی جا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف عرب ممالک نے بھارتی سفیروں کو بلا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
حالانکہ اس سے قبل بھی اکثر اوقات بی جے پی کے رہنما اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض بیانات دیتے رہے ہیں۔ لیکن مودی حکومت کے دوران ایسا پہلا موقع ہے جب مسلم دنیا میں شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو گہرا دھچکا لگا ہے۔
اس واقعہ سے مسلم ملکوں کے ساتھ بھارت کے مابین سیاسی و تجارتی تعلقات پر خاصا اثر پڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اگر آگے بھی ایسے بیانات سامنے آتے ہیں تو باہمی رشتے متاثرہونے کے یقینا قوی امکانات ہیں ۔
اس ضمن میں ایک دیگر نیوز رپورٹ میں سابق سفارت کار ذکر الرحمن کا کہنا ہے کہ متنازع بیانات پر مسلم ملکوں کے عوام میں کافی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ حکومتوں پر عوام کا دباؤہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے اس پر احتجاج کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے سیاسی و سفارتی سطح پر اور دانش وروں کی سطح پر بھی بھارت کی جانب سے جو کوششیں کی گئی تھیں، ان کو ایک دھچکا لگا ہے۔ ان کے مطابق دنیا ہندوستان کو ایک کثیر مذاہب، کثیر ثقافتی و کثیر لسانی ملک کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ اگر آگے بھی قابل اعتراض بیانات دیے گئے تو مستقبل میں باہمی تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ادھر ایک اور سینئر تجزیہ کار جیوتی ملہوترہ نے میڈیا ویب سائٹ ’’دی پرنٹ‘‘ کے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حکومت کی سطح پر یہ بات موضوع گفتگو ہے کہ بی جے پی اپنے بعض شعلہ بیاں رہنماؤں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ملکی سیاست پر پڑ رہا ہے بلکہ بھارت نے بیرون ممالک میں اپنی جو ساکھ بنائی تھی، وہ بھی متاثر ہورہی ہے۔ جیوتی ملہوترہ مزید کہتی ہیں کہ دونوں رہنماؤں کے مذکورہ قابلِ اعتراض بیانات پر اندرون ملک کئی دنوں سے احتجاج کیا جا رہا تھا لیکن کارروائی اس وقت کی گئی جب یکے بعد دیگرے متعدد مسلم ملکوں نے بھارت سے شدید انداز میں احتجاج کیا۔
ادھر متحدہ عرب امارات اور مصر میں سابق سفیر نودیپ سوری کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے2015اور2019میں عرب خواتین کے خلاف اشتعال انگیز اور قابل اعتراض باتیں کی تھیں۔ انہوں نے مسلم ملکوں کے احتجاج کو بھارت کے لیے سفارتی توہین قرار دیا۔
جبکہ بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی حکومت بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کے متاثر ہونے سے پریشان ہے۔ ادھر معروف صحافی ستنام سنگھ مانک اپنے فیس بک وال پر لکھتے ہیں کہ ’’گزشتہ آٹھ برس سے دیش کی بڑی حصولیابی یہی رہی ہے کہ دیش میں اقلیتوں اور بر سرِ اقتدار پارٹی سے الگ رائے رکھنے والے لوگوں کو ہراساں کیا گیا ہے، بڑے پیمانے پر ان پر جھوٹے مقدمات درج کرکے انہیں جیلوں میں ٹھونسا گیا ہے، نوجوانوں کی زندگیاں برباد کر دی گئی ہیں اب امریکہ سمیت عرب ممالک نے اس کا نوٹس لینا شروع کر دیا ہے۔‘‘
جبکہ معروف صحافی نمرت کور اپنے ایک اداریہ میں لکھتی ہیں کہ ’’ایسے کئی نام ہیں جو اکثر ٹی وی چینلز پر اور سوشل میڈیا پہ تیکھا اور کڑوا بولتے ہیں اور ان کو سنتے وقت کئی بار تو دماغ چکرانے لگتا ہے۔ ترجمانوں سے زیادہ ٹی وی چینلز پر بیٹھے کئی اینکرز نفرت سے بھری باتیں کرتے ہیں اور اس نفرت کی صحافت سے دنیا بھر میں بھارت کی امیج متاثر ہوئی ہے۔
آخر میں اپنی بات کبیر کے اس دوہہ کے ساتھ اختتام پذیر کرنا چاہوں گا کہ:
ایسی وانی بولیے، من کا آپا کھوئے
اورن کو شیتل کرے، آپہوں شیتل ہوئے!!
[email protected]