زکوٰۃ کے چند ضروری مسائل

0

مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی

حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دینا کہ محمد ؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوٰۃ ادا کرنا ،بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا(بخاری وسلم)۔ قرآن مجید اور احادیث شریف میں زکوٰۃ کی ادائیگی کو خدا کی خوشنودی ورضامندی کا بہترین ذریعہ بتایا گیا ہے اور زکوٰۃ نہ نکالنے والے کو عذاب آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں ، اس سے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں اور اس ادائیگی کے بدلے میں مزید مال ودولت سے نوازتے ہیں برخلاف جو زکوٰۃ کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتا ہے یا صحیح ڈھنگ سے ادا نہیں کرتا یا نکالتا تو ہے مگر مکمل نہیں نکالتا تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اس کے لئے مال کو آزمائش بنادیتے ہیں یا پھر اس نعمت کو اس سے چھین لیتے ہیں۔زکوٰۃ مال کی تطہیر، اضافہ وخیر وبرکت، مرض حب ِ مال سے حفاظت ، مال کے شر سے حفاظت، غریبوں کی اعانت اور آخرت میں بے حساب اجر وثواب کا ذریعہ ہے۔رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ’’اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ محفوظ کرو،اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور مصیبتوں کا دعا سے مقابلہ کرو( ابوداؤد)۔ زکوٰۃ نہ نکالنے والے کوقیامت کے دن اسی کے مال کے سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ ایک حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتا تو یہ مال قیامت میں سانپ بن کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا اور وہ کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ،تیرا خزانہ ہوں(بخاری:۱۴۰۳) ۔زکوٰۃ کامقصد جہاں ایک طرف مال کی محبت کم کرنا ہے ،دوسری طرف مسکینوں کی اعانت بھی ہے۔
زکوٰۃ کی افادیت :زکوٰۃ میں نیکی وثواب کے علاوہ افادیت کے بہت سے پہلو ہیں جس پر علماء نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ،ماضی قریب کے معروف بلند پایہ ،بزرگ عالم مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے زکوٰۃ کی افادیت کے بنیادی تین پہلو ؤں کا کچھ اس طرح ذکر کیا ہے ، لکھتے ہیں کہ’’ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع وسجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل ونیازمندی کا مظاہرہ جسم وجان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ورحمت اور اس کا قرب حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا سمجھتا اور یقین کرتا ہے اور اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل کر نے کے لئے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے،دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت واعانت ہوتی ہے ،اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے،اور تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کُش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے ،زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے(معارف الحدیث ۴؍۲۰) ۔

زکوٰۃ میں رقم دے دی جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے ضرورت مند اپنی ضرورت کی چیزیں خرید سکتا ہے اور اگر سامان کی شکل میں دیں تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ایسی چیزیں دی جائیں جو ان کے لئے زیادہ ضروری ہوں اور اس میں عمدہ چیزوں کا خیال رکھیں ۔بعض لوگ ایسی چیزیں دیتے ہیں جن سے اس کی فی الفور ضرورت پوری نہیں ہوپاتی اور اس کے باوجود اس کی محتاجگی باقی رہتی ہے ۔

زکوٰۃ کی فرضیت کے لئے مالدار شخص یعنی صاحب نصاب کا مسلمان ،آزاد،عاقل ،بالغ ہونا ضروری ہے (درمختار)۔ زکوٰۃ مسلمان مالدار سے لی جائے گی اور مسلمان غریب ہی کو دی جائے گی(ترمذی:۶۴۹)۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ خیرات (زکوٰۃ ) کا مال تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور زکوٰۃ کی وصولی کرنے والوں اور جن کا دل ملانا مقصود ہے اور غلاموں اور قرابت دا روں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کے لئے ہے اور یہی اللہ کا قانون ہے بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا حکیم ہے ‘‘(توبہ :60)۔ زکوٰۃ کے جملہ یہ آٹھ مصارف ہیں ۔
غرباء ومساکین میں بعض تو وہ ہیں جنہوں نے گدا گری کو پیشہ بنالیا ہے ، صحت مند وتندرست ہیں اورقوت بازو سے کماکر کھا نے کی قوت رکھتے ہیں پھر بھی بھیک مانگتے رہے ہیں ،ایسے لوگوں کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا’’زکوٰۃ حلال نہیں ہے غنی( مالدار) اور تندرست وتوانا کے لئے(ترمذی:654)۔ وہ فقیر اور مسکین جو شرم وحیا کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے ہیں ،در اصل یہی حقیقی فقیر ومسکین ہیں اور امداد کے صحیح حقدار بھی ہیں۔رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا’’اصل مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس سائل بن کر جاتا ہے اور ایک دو لقمے یا ایک دو کھجور لے کر لوٹتا ہے بلکہ حقیقی مسکین وہ ہے جس کے پاس ضرورت پوری کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں اور لوگ اس کے حال کو جانتے بھی نہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ غیرت وشرم کی وجہ سے لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا (بخاری:۱۴۷۹) ۔مالدار اور صاحب نصاب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رشتہ داروں،پڑوسیوں ، محلہ کے مستحق لوگوں پر نظر ڈالیں ساتھ ہی ان محلوں کا جائزہ لیں جہاں باضمیر مستحق غرباء ومساکین رہتے ہیں اور ان تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں۔ سہولت کی خاطر کسی بھی فرد کو زکوٰۃ دے دینا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے ،اس سے حقیقی مستحق محروم ہوجاتے ہیں ،اگر تلاش کے باوجود حقیقی مستحق تک رسائی ممکن نہ ہو تو پھر ان دینی ،فلاحی اور رفاہی تنظیموں کے حوالے کر سکتے ہیں جن کی امانت داری ودیانت داری پر آپ کو اطمینان حاصل ہے،چونکہ یہ حضرات محلہ محلہ سروے کر تے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں حقیقی مستحقین کا بخوبی علم رہتا ہے۔
زکوٰۃ دے کر احسان نہ جتائیں: زکوٰۃ دے کر ہر گز احسان نہ جتائیں بلکہ لینے والے کا احسان مانیں کہ اس کی وجہ سے آپ کا ایک اہم فریضہ ادا ہوا ہے۔ زکوٰۃ دے کر احسان جتانا گویا مال کماکر دریا میں ڈالنا ہے۔بعض لوگ بڑا شور شرابہ کر کے زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں ۔ یہ غریبوں کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے۔گرچہ صدقات واجبہ علانیہ دینے کی بھی اجازت ہے ،اس سے دوسروں کو ترغیب اور حوصلہ ملتا ہے، بد گمانی دور ہوتی ہے لیکن زکوٰۃ دیتے وقت کوئی ایسا طریقہ اپنا نا نہیں چاہیے کہ جس سے ریا ونمود کی بو مہکنے لگے ،اس سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ۔دراصل اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص وللہیت پر ہی موقوف ہے۔
مدارس اسلامیہ کو زکوٰۃ دینا : مصارف زکوٰۃ میں مدارس دینیہ بھی شامل ہیں ، مدارس دینیہ کی اہمیت،ضرورت اور افادیت سے امت مسلمہ اچھی طرح وقف ہے ،یقینا مدارس کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی ، مدارس دینیہ کی بڑی خوبی ہے کہ وہ بے حد کم وسائل اور نہایت قلیل آمدنی کے باوجود ان کالجس اور یونورسیٹیوں سے کہیں زیادہ بہتر خدمات انجام دیتے ہیں جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں۔مدارس اور ان میں پرھنے ،پڑھانے والے دینی سر حدوں کے محافظ اور امین ہیں۔ یہ حضرات دین متین کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔آج ہر طرف اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، جدید وسائل کی کنجی ان کے ہاتھوں میں ہے۔اسلام پرہر روز نیاوار کیا جا رہا ہے ،ان حالات میں مدارس دینیہ اور علماء کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ امت کو ان مدارس اسلامیہ اور علماء کے شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لئے ہوئے ہیں۔یہ تعلیم دین، تبلیغ دین کے ساتھ حفاظت دین کا اہم فریضہ انجام دے رہیں۔
رمضان میں رسول اللہؐ کی جود و سخاوت: خود رسول اللہ ؐ کا حال یہ ہوتا تھا کہ آپ ؐ باوجود لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وفیاض ہونے کے رمضان المبارک آتے ہی سخاوت وفیاضی کے دریا بہا دیا کرتے تھے۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ ؐ نفع پہنچانے میں لوگوں میں سب سے آگے تھے،اور رمضان میں جبرئیل ؑ ملتے تو آپ ؐ اور بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے،اور جبرئیل ؑ آپ ؐ سے رمضان میں ہر روز ملاقات کرتے تھے،یہاں تک کہ پورا رمضان گزرجاتا تھا،جبرئیل ؑ آپ کے سامنے قرآن پڑھاکرتے تھے ،جب جبرئیل ؑ آپ ؐ سے ملتے تو آپ ؐطوفانی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے(بخاری :1774)۔گویا پورا رمضان آپ ؐ کے دولت کدہ سے کثرت کے ساتھ خیر خیرات کی جاتی اور غریب ونادار،مفلس و مستحق افراد کی بھر پور اعانت کی جاتی تھی۔ حضرات صحابہ ؓ بھی اپنے محبوب ؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستحقین کی دل کھول کر امداد کرتے تھے۔ رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنے کے فائدے : اکابر امت نے رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالنے کے بہت سے فوائد بیان کئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں (۱) چونکہ یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے ،ہر سو رحمتوں وعنایتوں کی ہوائیں چلتی رہتی ہیں ،جس میں صاحب ایمان کے لئے نیکیوں کی طرف بڑھنا دیگر مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ سہل ہوجاتا ہے ، اور پھر مسلمان کے لئے ایک فرض (روزہ)کی ادائیگی کے ساتھ دوسرا فرض(زکوٰۃ) ادا کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ (۲) زکوٰۃ کے سلسلہ میں سال متعین کرنے کے لئے یگر مہینوں کے مقابلہ میںرمضان المبارک زیادہ موضوع اور مناسب ہے ،کیونکہ اس مہینہ میں لوگ فرائض ،واجبات اور نوافل پر کثرت سے عمل پیرا ہوتے ہیں ۔(۳) دیگر مہینوں کے مقابلہ میں اس ماہ میں زکوٰۃ کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے ۔لہذا جن اشخاص کو اللہ تعالیٰ نے صاحب حیثیت ، صاحب ثروت بنایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ انہیں دینے والوں میں سے بنایا ہے نہ کہ لینے والوں میں سے ۔سال گزرنے پر سونا ،چاندی ،نقدی رقم یا جن مالوں میں تجارت کی نیت کی ہے اور اگر تاجر ہیں تو سامان تجارت کا مکمل حساب لگاکر اس کی زکوٰۃ اداکریں ،بعض لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہے ۔بعض لوگ اندازے سے زکوٰۃنکالتے ہیں یہ عمل بھی درست نہیں ہے۔بعض لوگ زکوٰۃ میں معمولی قسم کی چیزیں دیتے ہیں یہ بھی نامناسب ہے ۔زکوٰۃ میں رقم دے دی جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے ضرورت مند اپنی ضرورت کی چیزیں خرید سکتا ہے اور اگر سامان کی شکل میں دیں تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ایسی چیزیں دی جائیں جو ان کے لئے زیادہ ضروری ہوں اور اس میں عمدہ چیزوں کا خیال رکھیں ۔بعض لوگ ایسی چیزیں دیتے ہیں جن سے اس کی فی الفور ضرورت پوری نہیں ہوپاتی اور اس کے باوجود اس کی محتاجگی باقی رہتی ہے ۔
uuu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS