ناقابل فہم باتیں

0

ملک میں ایک طرف کورونا کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو جانیں گنوانی پڑ رہی ہیں، یہ باتیں کہی جا رہی ہیں کہ یہ احتیاط کرنی چاہیے، وہ احتیاط کرنی چاہیے اور دوسری طرف بہت سی چیزیں ناقابل فہم ہیں۔ مثلاً : کورونا کے دور میں مغربی بنگال میں اتنے مرحلے میں اسمبلی انتخاب کرانا کیا ضروری تھا اور اگر ضروری تھا تو کیا الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے ایسی گائیڈ لائنس جاری نہیں کی جا سکتی تھی کہ لیڈران انتخابی تشہیر کے لیے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ کا ہی سہارا لیں گے، ریلیاں نہیں کریں گے؟ دہلی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں کورونا وائرس سب سے زیادہ تیور دکھا رہا ہے۔ لوگ اسپتالوں کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں، بار بار لاک ڈاؤن بڑھانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود میٹرو ٹرینوں کی فری کیونسی کم کر دی گئی ہے۔ ایک طرف یہ اناؤسمنٹ ہوتا رہتا ہے کہ میٹرو میں کھڑے ہو کر سفر کرنا قابل سزا جرم ہے اور دوسری طرف تاخیر سے میٹرو چلائی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے بھیڑ فطری طور پر بڑھ جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ کیا اسی طرح کورونا کی توسیع کی روک تھام کی جائے گی؟ مگر سوالوں کا جواب کون دے؟ حکومتیں اپنی امیج مثبت بنائے رکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے لیڈران بیان دیتے ہیں، کئی میڈیا والوں کے لیے ان بیانات کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ وہ اصل ایشوز پر توجہ نہیں دے پاتے ، یہ سمجھ نہیں پاتے کہ موت انہیں بھی آنی ہے۔ کورونا آدمی نہیں ہے کہ لوگوں کو گلے لگانے میں تفریق کرے گا۔ اسے جو ملے گا، وہ اسے اپنے اثر میں لینا چاہے گا مگر کچھ لوگ مجبور ہیں۔ اس سے بچ نہیں سکتے ۔ ایسے ہی مجبور اترپردیش کے پنچایتی انتخابات میں ڈیوٹی دے رہے وہ 706 اساتذہ تھے جن کی موت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ مبینہ طور پر کورونا کی وجہ سے ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ یہ اساتذہ اگر حکم عدولی کی جرأت کرتے تو کیا اسے سسٹم کے خلاف بغاوت سمجھا جاتا؟ وہ اگر یہ پوچھتے، کہ آدمی کی زندگی زیادہ ضروری ہے یا انتخابات زیادہ ضروری ہیں، تو کیا اسے قانون کے خلاف مانا جاتا؟ وہ اگر سوال کرتے، کہ لوگ ہی نہیں رہیں گے تو پھر جمہوریت کی بات کون کرے گا، تو کیا اس سے ان کی نوکری چلی جاتی؟ وہ اگر کہتے، کہ انتخابات ٹالے جا سکتے ہیں ، کورونا کے بھیانک شکل اختیار کر لینے پر موت نہیں ٹالی جا سکتی، تو ان کی بات پر کوئی کان دھرتا؟ سوال بہت سے ہیں۔ ایک یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ لوگوں کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے بہت سے طریقے ہیں مگر حکومتوں کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے کیا طریقے ہیں؟
عام لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے، انہیں ذمہ داریوں کا اگر احساس نہیں ہے تو احساس دلانا چاہیے، وہ ماسک نہ پہنیں تو ان پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے مگر سرکاریں لوگوں کو اچھا علاج مہیا نہ کرا سکیں، آئی سی یو بیڈ مہیا نہ کرا سکیں، آکسیجن فراہم نہ کرا سکیں تو کیا ان کو ہر الزام سے بری الذمہ کر دینا چاہیے؟ رپورٹ کے مطابق، ’پراتھمک شکشا سنگھ نے اسٹیٹ الیکشن کمیشن اور یو پی کے وزیراعلیٰ کو الیکشن ڈیوٹی میں لگے 706اساتذہ کی موت کی فہرست سونپتے ہوئے 2مئی کو ہونے والی ووٹنگ کو روکنے کی مانگ کی ہے۔ وہیں دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں نے مہلوکین کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کی مانگ کی ہے تو کچھ لوگ شکشک سنگھ کے اس دعوے پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ ‘ حقائق جاننے کے لیے حالات کے ہمہ جہت پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے مگر فوراً ہی کسی کی بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، چنانچہ پراتھمک شکشک سنگھ کے الزامات پر غور کرنا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ الزامات کس حد تک حقائق پر مبنی ہیں اور پھر کسی حتمی فیصلے کا اعلان کرنا چاہیے، کیونکہ حالات کو دیکھتے ہوئے پراتھمک شکشک سنگھ کی یہ بات آسانی سے پرے نہیں رکھی جا سکتی کہ ’ٹریننگ سے لے کر ووٹنگ تک ریاستی الیکشن کمیشن نے کورونا گائیڈ لائنس پر کہیں عمل نہیں کرایا جس سے حالات نہایت ہی سنگین ہو گئے۔‘ حیرت اس بات پر ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود پنچایتی چناؤ کے ووٹوں کی گنتی ٹالی نہیں گئی۔ الیکشن کمیشن کی یقین دہانی پر سپریم کورٹ نے گنتی کی اجازت دے دی ہے۔ گنتی میں شامل لوگ اوپر والا نہ کرے اگر کورونا سے متاثر ہوتے ہیں تو ان کے لیے اسپتال، آئی سی یو بیڈ، آکسیجن وغیرہ کے کیا انتظامات ہیں، اس پر الیکشن کمیشن کو اپنا مؤقف واضح کرنا چاہیے، بتانا چاہیے کہ جن اساتذہ کے مبینہ طور پر کورونا کی وجہ سے مرنے کے بارے میں کہا جا رہا ہے، ان کے اہل خانہ کو کیا مدد دی جائے گی، کیونکہ جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی عمل ضروری ہے مگر یہ عمل انسان ہی پورا کراتے ہیں، اس لیے اس عمل کو پورا کرانے سے زیادہ خیال انسانوں کا رکھا جانا چاہیے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS