مسعود عالم
سوشل میڈیا اطلاعات کا تیز ترین ذریعہ ہے جس کی بدولت دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اب ہم جہاں بھی ہوں، جو بھی معلومات درکار ہوں، اِک پل میں ہمیں موصول ہو جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔جب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا اب مشکل ہے تو ایسے میں لازم ہے کہ والدین کو پوری طرح اس بات کی آگاہی ہونی چاہئے کہ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات کیا ہیں اور اس پر موجود معلومات اور مواد کی حقیقت اور سچائی کو کس طرح جانچا جاسکتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ جو بات اہم ترین ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت کرتے وقت ان کو غلط اور صحیح، سچ اور جھوٹ، جائز اور ناجائز کے درمیان فرق کے ساتھ مثبت اور منفی رویوں کی پہچان بھی سکھانا ہوگی۔
سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے یعنی اس کے فوائد بہت ہیں تونقصانات بھی بہت۔ بات کریں فوائد کی تو دورِ حاضرمیں سوشل میڈیا سیکھنے کا آسان ترین، سستا ترین اور سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہر شعبے کی معلومات ہمارے ایک کلِک کے فاصلے پر دستیاب ہیں۔ تاہم اِس کا حد سے زیادہ یا بے مقصد استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ جسم و ذہن پر بھی خطرناک اثرات ڈالتا ہے۔ اِس ضمن میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی ذہنی تربیت کریں کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور اس کے منفی اثرات سے بچیں۔اسمارٹ فون کی لت کی وجہ سے بچے بھی پرتشدد ہو رہے ہیں اور ان کی نیند کا وقت بھی خراب ہو رہا ہے۔ کئی معاملات میں تو والدین سے چھپ کر بھی سوشل میڈیا چلا رہے ہیں۔ انگلینڈ کی ڈی مونٹ فورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 10 سال کی عمر میں سوشل میڈیا پر بچوں کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ روزانہ تقریباً پانچ گھنٹے سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ اس میں دو گھنٹے رات میں اور تین گھنٹے دن میں گزارے جاتے ہیں۔سوشل میڈیا پر متحرک رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بچے مشہور لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے فیس بک اور انسٹا اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے دوست کیا کر رہے ہیں اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے جڑنا چاہتے ہیں۔ اسمارٹ فون گیمنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات دیکھے جا رہے ہیں جہاں بچے گیمنگ کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ گھنٹوں فون پر گزار رہے ہیں۔ گھر والوں کی غیر موجودگی میں یہ زیادہ ہو رہا ہے۔ تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق 10 سال تک کے بچوں پر کی گئی ہے۔ جن کے پاس ذاتی فون تھا وہ بچے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ان کے دوست اور دیگر جاننے والے کیا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کی لت بچوں کی ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ماہر نفسیات کے مطابق بچے اکثر اپنے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کی نیوز فیڈ چیک کرتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہر 10 سے 15 منٹ میں ایک عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بار بار سوشل اکاؤنٹس دیکھنے کی یہ عادت دماغی صحت کو خراب کرنے لگتی ہے۔ بہت سے معاملات میں گم ہونے کے خوف کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا کو حقیقی زندگی کی طرح دیکھنا شروع کریں۔
سوشل میڈیا کے علاوہ بچوں میں فون پر گیمز کھیلنے کی لت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ مہینوں میں ملک میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ایک بچے نے گیم کھیلنے سے انکار پر خاندان کے کسی فرد کو قتل کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گیمز کی لت کی وجہ سے بھی بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ کئی بار بچے باہر کی دنیا کو کھیل کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ گیم کھیلنے کی وجہ سے بچوں میں نیند کی خرابی بھی ہو رہی ہے۔ بچوں میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی لت نے ان کی جسمانی سرگرمیاں کم کردی ہیں۔ا سکول سے آنے کے بعد بچوں کا زیادہ وقت فون پر گزرتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی کی وجہ سے ان میں موٹاپے کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کمر درد اور تھکاوٹ کا مسئلہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ان تمام چیزوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی لت کو کیسے کم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ابھی سے اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مستقبل میں ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ دن بھر بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ بچے کو پڑھائی کے علاوہ کسی اور کام کے لیے فون یا لیپ ٹاپ نہ دیں۔ فون کال کا شیڈول بنائیں۔ اگر آپ کے بچے کو فون کے ساتھ کوئی کام نہیں ہے تو اسے اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ اپنے بچے کو باہر کھیلنے کی عادت ڈالیں۔ انہیں ہر شام ان کے کسی کھیل کے میدان یا پارک میں لے جائیں۔ جسمانی سرگرمیاں بڑھیں گی تو فون کا استعمال بھی کم ہو جائے گا۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ بچہ گھر میں سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے تو اسے روکیں اور اس کے نقصانات کے بارے میں رہنمائی کرتے رہیں۔چھ سے بارہ سال کے بچوں کیلئے رات دن ایسی گیمز ایجاد ہورہی ہیں جن میں تشدد، قتل و غارت اور جنسی بے راہ روی جیسی سرگرمیاں بآسانی بچوں تک پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ سے بچے ضدی، تشدد پسند اور تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں ساتھ ہی مسلسل بیٹھ کر گیمز کھیلنے یا انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال سے جسمانی ورزش اور کھیل کم ہو کے رہ گیا ہے جو کہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشونما کیلئے بہت نقصان دہ ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہورہی ہے۔ الیکٹرانک گندگی کے اس دور میں سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنے بچوں کو ہر ممکنہ حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں چونکہ اتنے زیادہ ایکسپوژر میں مکمل اجتناب تو مشکل ہی نظر آتا ہیمگر کوشش کریں کہ بچے جب بھی موبائل یا ٹیبلٹ میں انٹرنیٹ استعمال کریں تو آپ ان کی وقتاََ فوقتاََ نگرانی کریں کوشش کریں کہ بچے کم سے کم ویڈیو گیمز اور زیادہ سے زیادہ فزیکل گیمز میں حصہ لیں۔ بچوں کے کمرے میں ٹی وی یا کمپیوٹر رکھنے سے گریز کریں کمپیوٹر، ٹی وی ٹیبلٹ اور ایسی تمام تر سہولیات کا استعمال صرف ایسی جگہ تک محدود کریں جہاں آپ مسلسل نظر رکھ سکیں چونکہ زیادہ روک ٹوک سے بچے باغی ہوجاتے ہیں لہذا انہیں پیار سے سمجھائیں اور ان کو خود سے بہت قریب رکھیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں ہونے والا کوئی بھی مسئلہ محض آپ کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چھپاکر خود کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی ہر برائی خوبصورت ترین طریقے سے ہمارے بچوں کے سامنے پیش کی جارہی ہے ان کے ذہن معصوم ہیں،لہٰذایہ ماں باپ اور تمام بالغ افراد کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں کو بھی ان آفات سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کریں کیونکہ یہ معاشرتی مسئلہ ہے یہی بچے، یہی نوجوان ہمارا اور قوم کا مستقبل ہیں اس لئے ہمیں انہیں مثبت سرگرمیوں سے روشناس کرانے اور ہر طرح کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کی ممکنہ کوشش کرنی ہے کام واقعی مشکل ہے اور بہت سارا وقت بھی درکار ہے مگر اپنے کل کو محفوظ کرنے کیلئے آج کا کچھ حصہ تو قربان کر سکتے ہیں۔ نتائج ان شاء اللہ پر امید ہوں گے۔
َُْ[email protected]
سوشل میــڈیـا اور بچے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS