نئی دہلی :یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
جمیلہ کورودس ایک ایسی باہمت خاتون ہیں، جو ایک باقاعدہ تربیت یافتہ سیلز وومین ہیں۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ایک پروگرام میں شرکت کی، جس کا موضوع تھا: ”محنت کے باوجود غریب، کیا سماجی ترقی ایک کھوکھلا وعدہ بنتی جا رہی ہے؟‘‘
جرمنی میں امیر اور غریب میں فرق مزید بڑھ گیا
جمیلہ کوردوس اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی ہیں اور انہیں تقریباﹰ ہمیشہ ہی مالی وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ وہ ایک بڑے آن لائن شاپنگ سٹور کے ویئر ہاؤس میں کلرک کی کل وقتی ملازمت کرتی ہیں مگر ان کے پاس ہر ماہ ادا کیے جانے والے لازمی اخراجات کے بعد گزر بسر کے لیے صرف تقریباﹰ 500 یورو (610 ڈالر) ہی بچتے ہیں۔
اس جرمن خاتون کارکن کو شکایت یہ ہے کہ جرمنی میں کام کرنے کے باوجود غریب رہنا روزمرہ کی کڑوی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسی بات کی ایک ایسی سرکاری رپورٹ بھی تصدیق کرتی ہے، جو ملک میں غربت سے متعلق جرمن وزارت محنت نے حال ہی میں جاری کی۔
اس رپورٹ کے اجراء سے پہلے اس کی چانسلر انگیلا میرکل کی سربراہی میں وفاقی جرمن کابینہ نے منظوری بھی دے دی۔ اس سرکاری رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق پر جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بحث اگلے ماہ جون میں ہو گی۔
پانچ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ
امسالہ رپورٹ 500 صفحات پر مشتمل ہے اور ایسی ایک رپورٹ جرمن وزارت محنت کی طرف سے ہر چار سال بعد تیار کی جاتی ہے۔
تازہ ترین رپورٹ جن پریشان کن حقائق کی تصدیق کرتی ہے، ان میں یہ بات بھی شامل ہے: جرمنی میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی تیزی سے وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس تفریق میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے مزید شدت آ گئی ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے اجراء کے بعد جرمن اپوزیشن سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور سماجی فلاحی تنظیموں نے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔
جرمنی میں سماجی فلاحی اور خیراتی اداروں کی نمائندہ سب سے بڑی ملکی تنظیم کے محقق اور اس ادارے کے روزگار سے متعلقہ امور کے شعبے کے سربراہ یوآخم روک کہتے ہیں، ”یہ رپورٹ اس امر کا ثبوت ہے کہ سماجی عدم مساوات سے پیدا ہونے والے بحران نے غریب ترین شہریوں کو ہی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔‘‘
یوآخم روک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ”کورونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کی وجہ سے پیدا شدہ بحرانی حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ کم آمدنی والے باشندوں کو ہی سب سے زیادہ خطرہ رہا کہ وہ اپنے روزگار اور یوں اپنی آمدنی سے محروم ہو جائیں۔ اس کے برعکس امراء کو اس حوالے سے بہت ہی کم جدوجہد کرنا پڑی۔‘‘
جرمنی میں غریب کس کو کہتے ہیں؟
"Ich bin so groß geworden, dass Arbeit das Wichtigste ist und ich bin ja ein Vorbild für mein Kind", sagt die alleinerziehende Mutter Djamila #Kordus bei #hartaberfair @DasErste. #workingclass #Arbeit pic.twitter.com/8FiPBTjdAy
— hart aber fair (@hartaberfair) May 10, 2021
جرمنی میں غریب ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی شہری کی ماہانہ آمدنی ملک میں ایک عام کارکن کی بعد از ٹیکس ماہانہ اوسط آمدنی کے 60 فیصد سے کم ہو۔ اس وقت یہ رقم 1176 یورو (1429 ڈالر) ماہانہ کے برابر بنتی ہے۔
اس کے برعکس یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں امیر ہر اس شہری کو گنا جاتا ہے، جس کی بعد از ٹیکس ماہانہ آمدنی 3900 یورو سے زیادہ ہو۔ لیکن دوسری طرف جرمنی کے بہت امیر شہریوں میں ملک بھر میں سپر مارکیٹوں کے سلسلے Lidl کے مالک ڈیٹر شوارٹس جیسے شہری بھی شامل ہیں، جن کی نجی دولت کا
اندازہ 20 بلین یورو سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔
امیر اور غریب کے مابین خلیج میں اضافہ
نئی سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں امیری اور غریب کے مابین خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں امیر اور غریب شہریوں دونوں ہی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس اسی وسیع ہوتی ہوئی خلیج کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں متوسط مالی طبقے کے شہریوں کی تعداد پہلے کی طرح آج بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
بشکریہ:Dw