عمیر کوٹی ندوی
سماج کے دو چہرے ہمیشہ سے ہی بہت نمایاںہیں۔ ایک چہرہ برائی کا ہے، برائی اپنی عادت کے مطابق وجود انسانی کے آغاز سے ہی اپنے لئے راہ تلاش کرتی رہی ہے۔ یہ اپنے وجود کے وقت کمزور و ناتواں ہونے کی صورت میں حیلے بہانے سے آگے بڑھتی ہے۔ لیکن جب توانا ہوجاتی ہے اور طاقت و اختیار حاصل کرلیتی ہے تو آپا کھوبیٹھتی ہے،اپنے چہرے پر پڑے تمام پردوں کو چاک کردیتی ہے اور کھلے عام دندناتی پھرتی ہے۔ تاریخ کے اوراق برائی کی بے رحمانہ روش کے گواہ ہیں۔ ادھر کچھ برس سے اس کا یہ پہلو خاصا نمایاں ہوگیا ہے۔ بلقیس بانو معاملہ ہی کو لے لیں۔ مقام حیرت ہے کہ جس وقت پورا ملک آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا، لوگ آزادی کے امرت سے لطف اندوز ہورہے تھے،ایسے موقع پر 5ماہ کے حمل سے ہونے والی بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور ان کے گھر کے 7 لوگوں کے قتل کے معاملہ میں عمر قید کی سزا یافتہ 11 مجرمین کی سزا معاف کرکے انہیں رہا کر دیا گیا۔ بات یہیں پر نہیں رکی ان مجرمین کا پھول مالا پہناکر اور میٹھائی کھلا کر استقبال بھی کیا گیا۔
ان مجرمین کی رہائی کی سفارش کرنے والی گجرات حکومت کی 10رکنی مشاورتی کمیٹی میں سے 5رکن حکمراں جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بات بھی میڈیا رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ اسی کمیٹی کے ایک رکن اور ریاست میں حکمراں جماعت بی جے پی کے گودھرا سے ممبر اسمبلی سی کے راؤل جی کی میڈیا سے کی گئی گفتگو بھی حیران کن ہے، اس میں وہ کہتے ہیں کہ ’(مجرم) برہمن ہیں اور اچھے سنسکار والے ہیں‘۔ وہ رپورٹر سے کہتے ہیں کہ’ وہ(مجرم) برہمن ہیں اور برہمن اچھے سنسکار کے لئے جانے جاتے ہیں……جیل میں رہتے ہوئے ان کا برتاؤ اچھا تھا‘۔ انہوں نے مجرمین کا پھول مالا اور مٹھائی کے ساتھ استقبال کرنے والوں کی حمایت بھی کی۔ یہ پورے معاملہ کا انتہائی سنگین پہلو ہے اور پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں بار بار اور پورے طور پر اپنے کھلے چہرے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ہاتھرس اجتماعی عصمت دری اور قتل معاملہ میں نہ جانے کتنے چہرے پوری دیدہ دلیری سے سنگین برائی کے ساتھ نظر آئے۔ جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاؤں میں ایک 8 سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کے انتہائی انسانیت سوز واقعہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ ملک کے طول و عرض میں عصمت دری، تشدد، موب لنچنگ، فرقہ وارانہ منافرت کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر میں ایک تعداد پوری ڈھٹائی سے برائی کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کی جگہ آگے اور آگے بڑھتا جارہا ہے۔
سماج کا ایک دوسرا چہرہ بھی ہے جو پہلے چہرے کے مد مقابل ہے، بلکہ پہلے چہرے سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ یہ ہے نیکی اور بھلائی کا چہرہ جو روز اول سے خیر کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے، سچائی اور اچھائی کی طرف بلاتا ہے۔ اس راہ پر چلنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ برائی خواہ کتنا ہی زور مار لے، اچھائی اور سچ کی راہ پر چلنے والوں کو خواہ کتنا ہی پریشان کرلے، انہیں آزمائشوں میں مبتلا کرلے وہ نیکی کے برابر نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بات کو انسانوں کے پیدا کرنے والے نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی‘‘ (فصلت:34)۔ یہی وجہ ہے کہ نیکی کی راہ پر چلنے والے اپنے پیدا کرنے والے کے اس حکم کو مانتے ہوئے کہ ’’ برائی کو بھلائی سے دور کرو‘‘ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی آگے بڑھ رہے ہیں جب کہ زمانہ قدم قدم پر ان کے لئے پریشانیاں پیدا کر رہا ہے۔ لیکن وہ پورے یقین، سکون اور صبر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے اس عمل کو دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہیں، خود برائی کی راہ پر چلنے والے بھی اس صورت حال پر گاہے بہ گاہے پریشانی کا اظہار کردیتے ہیں اور تو اور نیکی پر چلنے والوں کو بزدلی کا طعنہ تک دے دیتے ہیں۔
برائی کی راہ پر چلنے والے یہ نہیں جانتے کہ اچھائی اور نیکی کی راہ پر چلنے والوں کے اس عمل کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پیدا کرنے والے نے ان کو بتا دیا ہے کہ اچھائی اور نیکی کی راہ پر چلنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب ’’وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ گویا گرم جوش دوست بن جائے گا‘‘۔ نیکی پر چلنے والوں کے اس طرز عمل کا اثر دکھتا ہے اور کھلی آنکھوں دکھتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے سماج کے اچھے دل، اچھے دماغ اور اچھے کردار ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ موجودہ سخت حالات میں بھی ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ وہ خود بھی سچ بولتے ہیں اور سچ کے ساتھ کھڑے بھی ہوتے ہیں۔ اس کے لئے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، پریشانیاں اٹھاتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں۔ اس وقت پورے سماج میں نظر اٹھا کر دیکھ لیں، اچھے لوگ بہت بڑی تعداد میں نظر آرہے ہیں جو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اور نقصان پر نقصان اٹھا کر سچ اور نیکی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ برائی کو برا کہہ رہے ہیں، مظلوموں اور پریشان حال لوگوں کی حمایت میں کھڑے ہورہے ہیں۔ وہ بٹنے اور تقسیم ہونے کو تیار نہیں ہیں بلکہ وہ جڑ رہے ہیں، مل رہے ہیں اور ساتھ چل رہے ہیں۔ نیکی اور اچھائی پر چلنے والوں کو پورا یقین ہے کہ ان کے اس راہ پر چلنے اور تمام انسانوں سے ہمدردی وخیرخواہی کے نتیجہ میںایک دن ضرور ایسا آئے گا جب برائی میں دلچسپی لینے والے بھی اچھائی اور نیکی کی راہ پر چلنے لگیں گے اور اچھے لوگوں کے دوست بن کر اچھا سماج بنانے اور سماج کو وکاس کی طرف لے جانے میں پورے وشواس کے ساتھ ان کا ساتھ دیں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔
[email protected]