چھوٹی ندیاں بڑے کام کی

0

پنکج چترویدی

ویسے تو ہر دن سماج، ملک اور زمین کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن چھوٹی ندیوں پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔ گنگا، جمنا جیسی بڑی ندیوں کو صاف رکھنے پر تو بہت کام ہو رہاہے، لیکن یہ ندیاں بڑی اس لیے بنتی ہیں کیونکہ اس میں بہت سی چھوٹی ندیاں آ کر ملتی ہیں۔ اگر چھوٹی ندیوں میں پانی کم ہو گا تو بڑی ندیاں بھی سوکھی رہیں گی۔ اگر چھوٹی ندی میں آلودگی ہوگی تو وہ بڑی ندیوں کو متاثر کرے گی۔ چھوٹی ندیاں اکثر گائوں، قصبوں میں بہت کم دوری میں بہتی ہیں۔ کئی بار ایک ہی ندی کے الگ الگ گائوں میں الگ الگ نام ہوتے ہیں۔ بہت سی ندیوں کا تو ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ ہمارے لوک سماج اور قدیم ’مانیتا‘ ندیوں اور پانی پر بہت الگ تھی۔ بڑی ندیوں سے دور گھر، گرہستی ہو۔ بڑی ندی کو بلا روک ٹوک بہنے دیا جائے۔ کوئی بڑا پرب تہوار ہو تو بڑی ندی کے کنارے یکجاہوں، اشنان کریں اور پوجا کریں۔ چھوٹی ندی یا تالاب یا جھیل کے آس پاس بستی۔ یہ آبی ڈھانچہ روزانہ کے کام کے لیے جیسے اشنان، کپڑے دھونے مویشی وغیرہ کے لیے۔ پینے کے پانی کے لیے گھر-آنگن ، محلے میں کنواں، جتنا پانی چاہیے، محنت کیجئے، اتنا ہی رسی سے کھینچ کر نکالیے۔ اب اگر بڑی ندی بہتی رہے گی تو چھوٹی ندی یا تالاب میں پانی رہے گا۔ اگر تالاب اور چھوٹی ندی میں وافر مقدار میں پانی ہے تو گھر کے کنویں میں بھی پانی کی کبھی کمی نہیں ہوگی۔
ایک اندازہ ہے کہ آج بھی ملک میں تقریباً 12 ہزار چھوٹی ایسی ندیاں ہیں جو نظر انداز ہیں، ان کے وجود پر خطرہ ہے۔ انیسویں صدی تک بہار میں (آج کے جھارکھنڈ کو ملا کر) تقریباً 6 ہزار ندیاں ہمالیہ سے اتر کر آتی تھیں، آج ان میں سے محض 400 سے 600 کا ہی وجود بچا ہے۔ مدھوبنی، سپول میں بہنے والی تِل یوگا ندی کبھی کوسی سے بھی بڑی ہوا کرتی تھی، آج اس کی جل دھارا سمٹ کر کوسی کی معاون ندی کی شکل میں رہ گئی ہے۔ سیتامڑھی کی لکھن دیئی ندی کو تو سرکاری عمارتیں ہی چاٹ گئیں۔ ندیوں کے اس طرح روٹھنے اور اس سے سیلاب اور خشک سالی کے درد ساتھ ساتھ چلنے کی کہانی ملک کے ہر ضلع اور قصبے کی ہے۔ لوگ پانی کے لیے پاتال کا سینہ چیر رہے ہیں اور ناامیدی ہاتھ لگتی ہے، انہیں سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ زمین کے بطن میں پانی کا زخیرہ تبھی بھر پور رہتا ہے جب پاس بہنے والی ندیاں ہنستی کھیلتی ہوں۔
اندھا دھند ریت کی کان کنی، زمین پر قبضہ، ندی کے سیلاب کے علاقے میں مستقل تعمیرات ہی چھوٹی ندی کے سب سے بڑے دشمن ہیں – بدقسمتی سے ضلع سطح پر کئی چھوٹی ندیوں کا ریونیوں ریکارڈنہیں ہے، ان کو شاطرانہ طریقے سے نالا بتا دیا جاتا ہے۔ جس صاحبی ندی پر شہر بسانے سے ہر سال گروگرام ڈوبتا ہے، اس کا بہت سا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ جھارکھنڈ- بہار میں گزشتہ 40 سال کے دوران ہزار سے زیادہ چھوٹی ندیاں غائب ہو گئیں، ہم جمنا میں پیسہ لگاتے ہیں لیکن اس میں زہر لا رہی ہنڈن، کالی کو اور گندہ کرتے ہیں- کل ملا کر یہ نل کھلا چھوڑ کر پونچھا لگانے کا کام کرنے جیسا ہے۔
چھوٹی ندی صر ف پانی کی آمدورفت کا ذریعہ نہیں ہوتی۔ اس کے چاروں طرف سماج بھی ہوتا ہے اور ماحولیات بھی۔ ندی کنارے کسان بھی ہے اور کمہار بھی، ماہی گیر بھی اور دھیمر بھی- ندی کی صحت بگڑی تو تالاب سے لے کر کنوے تک میں پانی کا بحران ہوا- اس لیے راست اور بالواسطہ طور پر سماج کا کوئی ایسا طبقہ نہیں ہے جو اس سے متاثر نہیں ہوا ہو۔ ندی سے جڑ کر پیٹ پالنے والوں کا جب پانی کے ذخائر پر سے انحصار ختم ہوا تو مجبوراً انہیں ہجرت کرنی پڑی۔ اس سے ایک طرف پانی کے ذخائر آلودہ ہوئے تو دوسری طرف بے لگام شہر کاری کی وجہ سے بڑے شہر اربن سلم میں بدل رہے ہیں۔ صحت، ٹرانسپورٹ اور تعلیم کے وسائل کے بڑے شہروں میں اہمیت اختیار کرنے کی وجہ سے دیہی سماجی-اقتصادی توازن بھی گڑبڑا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ندی پر انحصار کرنے والے لوگوں کی ناامیدی نے پورے سماج کو مسئلوں کی نئی سوغات دی ہے۔
سب سے پہلے چھوٹی ندیوں کا ایک سروے اور اس کے آبی نظام کا دستاویز بنایا جائے، پھر چھوٹی ندیوں کا بلا روک ٹوک بہنا یقینی بنایا جائے، پھر اس سے ریت کی کان کنی اور ناجائز قبضے کو انسانی قتل کی طرح سنگین جرم مانا جائے۔ ندی کے سیدھے استعمال سے بچیں۔ ندی میں پانی رہے گا تو تالاب ، جوہڑ بہتر حالت میں رہیں گے اور اس سے کنویں اور زیر زمین پانی۔ مقامی استعمال کے لیے روایتی طریقے سے بارش کے پانی کی ایک ایک بوند کو یکجا کیا جائے، ندی کے کنارے جراثیم کش کے استعمال، صابن اور رفع حاجت سے پرہیز کے لیے عوامی بیداری اور متبادل نظام کا فروغ کیا جائے۔ سب سے بڑی بات ندی کو سبہتر رکھنے کی ذمہ داری مقامی سماج، خاص کر اس سے براہ راست وابستہ لوگوں کو دی جائے، جیسے کہ مدراس سے پدوچیری تک ایری کی دیکھ بھال کے لیے جل -پنچایت ہیں۔
بندیل کھنڈ تو پیاس، ہجرت کے لیے بدنام ہے۔ یہاں کے اہم شہر چھتر پور میں ایک ندی کی صحت بگڑنے سے وینس کی طرح پانی سے بھرا رہنے والا شہر بھی پیاسا ہو گیا۔ مہاراجہ چھترسال نے یہ شہر بسایا تھا۔ یہاں ندی کے اتار چڑھاؤ کی گنجائش کم ہی ہے۔ تین برساتی نالے دیکھیں-گٹھیورا نالا، سیٹئی روڈ کے نالا اور چندرپورہ گاؤں کے برساتی نالا۔ ان تینوں کا پانی الگ الگ راستوں سے ڈیرہ پہاڑی پر آتا اور یہ جل دھارا ایک ندی بن جاتی۔ چونکہ اس میں خوب سنگھاڑے ہوتے تو لوگوں نے اس کا نام سنگھاڑی ندی رکھ دیا۔ چھتر پور کبھی وینس کی طرح تھا- ہر طرف تالاب اور اس کے کنارے بستیاں اور ان تالابوں سے پانی کا لین دین چلتا تھا – سنگھاڑی ندی کا- برسات کی ہر بوند تین نالوں میں آتی اور پھر یکجاں ہو کر سنگھاڑی ندی کی شکل میں بہتی ۔اس ندی سے تالاب جڑے ہوئے تھے، جو ایک تو پانی کو بہتا ہوا شفاف رکھتے، دوسرے اگر تالاب بھر جائے تو اس کا پانی ندی کے ذریعے دوسرے تالابوں میں بہہ جاتا۔ سنگھاڑی ندی سے شہر کا سنکٹ موچن تالاب اور گوال مگرا تالاب بھی بھرتا تھا۔ ان تالابوں سے پرتاب ساگر اور کشور ساگر اور رانی تلیا بھی نالوں اور اونوں (تالاب میں زیادہ پانی ہونے پر جس راستے سے باہر بہتا ہے، اسے اونا کہتے ہیں۔) سے ہو کر جڑے تھے۔
ابھی دو دہائی پہلے تک سنکٹ موچن پہاڑیوں کے پاس سنگھاڑی ندی چوڑے پاٹ کے ساتھ سال بھر بہتی تھی۔ اس کے کنارے گھنے جنگل تھے، جن میں ہرن، خرگوش، اژدہا، تیندوا، لومڑی جیسے کئی جانور بھی تھے۔ ندی کنارے شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا۔ کئی کھیتوں کی اس سے آبیاری ہوتی اور کچھ لوگ اینٹ کے بھٹّے لگاتے تھے۔
گزشتہ دودہائی میں ہی ندی پر گھاٹ، پلیا اور تزئین کاری کے نام پر جم کر سیمنٹ تو لگایا گیا لیکن اس میں پانی کے آنے کے راستے بند کر دیے گئے۔ آج ندی کے نام پر نالا رہ گیا ہے۔ اس کی دھارا پوری طرح سوکھ گئی ہے۔ جہاں کبھی پانی تھا، اب وہاں بالو- ریت کی کان کنی کرنے والوں نے بہائو کے راستے کو اوبڑ کھابڑ اور دلدلی بنا دیا۔ چھتر پور شہری سرحد میں ایک تو جگہ جگہ زمین کی ہوس میں جو قبضے ہوئے اس سے ندی کا تالاب سے جوڑ گھٹائو کے راستوں پر روک لگ گیا، پھر سنکٹ موچن پہاڑیوں پر اب ہریالی کی جگہ کچے پکے مکان دکھنے لگے، کبھی برسات کی ہر بوند اس پہاڑ پر رکتی تھی اور دھیرے دھیرے رس کر ندی کو سیراب کرتی تھی۔ آج یہاں بن گئے ہزاروں مکانوں کا تیزابی پیشاب اور گندا پانی سیدھے سنگھاڑی ندی میں گر کر اسے نالا بنا رہا ہے۔ جب یہ ندی اپنی مکمل شکل میں تھی تو چھترپور شہر سے نکل کر کوئی 22 کلومیٹر کا سفر طے کر کے ہما، تڑپا، کلانی گائوں ہوتے ہوئے ارمل ندی میں مل جاتی تھی۔ ارمل بھی جمنا نظام کی ندی ہے۔ ندی زندہ تھی تو شہر کے سبھی تالاب، کنویں بھی لبالب رہتے تھے۔ دو دہائی پہلے تک یہ ندی 12مہینے کل کل بہتی رہتی تھی۔ اس میں پانی رہتا تھا۔ شہر کے سبھی تالابوں کو بھرنے میں کبھی سنگھاڑی ندی کا بہت بڑا کردار ہوتا تھا۔ تالابوں کی وجہ سے کنوئوں میں وافر مقدار میں پانی رہتا تھا، لیکن آج وہ خود اپنے ہی وجود سے نبردآزما ہے۔
ندی کے کلیدی دھارا کے راستے میں قبضہ ہوتا جارہا ہے۔ ندی کے کچھار ہی نہیں بہنے کے راستے میں ہی لوگوں نے مکان بنا لیے ہیں۔ کئی جگہ دھارا کو توڑ دیا گیا ہے۔ پوری ندی میں کہیں بھی ایک بوند پانی نہیں ہے۔ ندی کے راستے میں جو چھوٹے چھوٹے رپٹا اور بندھان بنے تھے وہ بھی ختم ہو گئے ہیں۔ پوری ندی ایک پگڈنڈی اور اوبڑ کھابڑ میدان کی شکل میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے جبکہ دو دہائی پہلے تک اس ندی میں ہر وقت پانی رہتا تھا۔ ندی کے گھاٹ پر شہر کے کئی لوگ ہر دن بڑی تعداد میں نہانے جاتے تھے۔ یہاں پر پہنچ کر لوگ یوگ اور ورزش کرتے تھے، کشتی لڑنے کے لیے یہاں پر اکھاڑا بھی تھا۔ بھوتیشور بھگوان کا مندر بھی یہاں قدیم زمانے سے ہے۔ یہ پورا علاقہ ہرے بھرے پیڑ پودوں اور قدرتی حسن سے مالا مال تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کا فطری حسن ختم ہوتا چلا گیا۔ ندی اب المیہ بن گئی ہے۔ آج ندی کے آس پاس رہنے والے لوگ مانسون کے دنوں میں بھی ایک سے دو کلومیٹر دور سے عوامی ہینڈ پمپ سے پانی لانے کے لیے مجبور ہیں، جب تب پانی کے بحران کا شور ہوتا ہے تو یا تو زمین کے اندر سے پانی نکالنے کے لیے پمپ روپ دیے جاتے ہیں یا پھر محلوں میں پائپ بچھائے جانے لگتے ہیں، لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا کہ زمین کے بطن یا پائپ میں پانی کہاں سے آئے گا؟
موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اب سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں چھوٹی ندیاں زمین کے درجۂ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے، مٹی کی نمی بنائے رکھنے اور ہریالی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ ندیوں کے کنارے سے تجاوزات ہٹانے، اس میں سے بالو-ریت کی کان کنی کو کنٹرول کرنے، ندی کی گہرائی کے لیے اس کی وقت وقت پر صفائی سے ان ندیوں کو بچایا جا سکتا ہے، سب سے بڑی بات سماج اگر ان ندیوں کو اپنا مان کر بچانے لگے تو اس سے سماج کا ہی مستقبل روشن ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS