فلک بوس ٹوئن ٹاورس زمین بوس

0

دہلی سے متصل نوئیڈامیںسپرٹیک کے ٹوئن ٹاورس کو گرانے کی جدوجہد اورقانونی لڑائی جتنی طویل اورمشکل رہی، اسے گرانے میں کچھ بھی وقت نہیں لگا، ایک جھٹکے میں سپرٹیک کی فلک بوس دونوں عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ جن عمارتوں کو بنانے میں 9 برس لگے تھے، گرانے میں صرف 9سیکنڈ لگے۔ دھماکہ ہوا، دونوں ٹاورس بھربھراکر ملبہ میں تبدیل ہوگئے اوراپنے پیچھے گردونواح کے علاقوں میں گردوغبار اور دھول چھوڑ گئے۔ جتنا مشکل دونوں عمارتوں کو گراناتھا، اتنا ہی مشکل ملبے کو ہٹانا اور وہاں کی آب وہوا کو معمول کے مطابق کرنا ہوگا۔ ملک میں کرپشن اور کرپشن کی عمارت کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ جس کا عرضی گزار بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔کمپنی نے انہیں بچانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن جیت کرپشن کے خلاف جدوجہدکرنے والوں کی ہوئی۔ جتنی منصوبہ بندی عمارتوں کو بنانے کیلئے کی گئی، اتنی ہی گرانے کیلئے کی گئی۔ تبھی تو کسی کو نقصان پہنچائے بغیر صرف ٹوئن ٹاورس گرائے گئے۔بتایاجاتا ہے کہ ایک عمارت 32منزلہ تودوسری 30منزلہ تھی۔اگر نہیں گرائی جاتیں تودونوں عمارتیں 40-40 منزل تک بن جاتیں۔ ماہرین کے مطابق 800کروڑ کی عمارتوں کو گرانے میں تقریباً 20کروڑ روپے کا خرچ آیا،کیونکہ گرانے کیلئے 3700کلو دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا گیا ۔ اب جبکہ دونوں عمارتیں ملبہ میں تبدیل ہوچکی ہیں توملبہ کے بارے میں اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ بھی 15کروڑ روپے میںفروخت ہوسکتا ہے ۔
2012سے ہی غیرقانونی ٹوئن ٹاورس کے خلاف سوسائٹی کی قانونی لڑائی چل رہی تھی ۔پہلے معاملہ الٰہ آباد ہائیکورٹ پہنچا، وہاں سے 2014میںتعمیرات پر روک کے ساتھ ٹوئن ٹاورس کو غیرقانونی قراردے کر گرانے کا فرمان صادر ہوا، ساتھ ہی جن 633لوگوں نے فلیٹ بک کرائے تھے ، کورٹ کی طرف سے ان کو 14فیصد سود کے ساتھ پیسہ لوٹانے کی ہدایت دی گئی۔ سپرٹیک بلڈرنے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، لیکن سپریم کورٹ نے بھی 31اگست 2021کو ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقراررکھتے ہوئے 3ماہ کے اندرٹوئن ٹاورس کو گرانے کا حکم دیا، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے انہدام کی تاریخ میں توسیع کی جاتی رہی ، آخرکار دونوں عمارتیںتیارہونے اور رہائش سے پہلے ہی تاریخ کا حصہ بن گئیں ،لیکن اب گرانے سے جو مسائل پیدا ہوئے ، جیسے ملبہ، گردوغبار، آلودگی اورایئرکوالٹی، نوئیڈا اتھارٹی کیلئے ان سے نمٹنا کسی چیلنج سے کم نہیں ۔دونوں عمارتوں کو بنانے والی کمپنی سپرٹیک کو جو بھاری نقصان ہوا ، وہ اپنی جگہ ہے ۔کتنوں کے خوابوں کے محل ٹوٹ گئے ۔قانونی لڑائی الگ پریشان کن اورخرچیلی رہی اورسب سے آخر میں نوئیڈااتھارٹی اور مقامی لوگوں کو ٹاورس گرانے سے جوپریشانی ہوئی ، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
ٹوئن ٹاورس زمین بوس ہوگئے ، لیکن وہ سوالات ختم نہیں ہوئے جو ان کی تعمیرات پر اٹھائے گئے یااٹھائے جارہے ہیں کہ آخر اتنے برسوں سے غیرقانونی عمارتوں کی تعمیرکو اتھارٹی خاموشی سے کیوں دیکھ رہی تھی؟جب اتنی اونچی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں تھی تواس پر پہلے ہی روک کیوں نہیں لگائی ؟ظاہر سی بات ہے کہ کرپشن کے بغیر تعمیرات تو ہونہیں سکتیں۔اگر سوسائٹی کے لوگ عدالت نہیں جاتے اور مقدمہ نہیں لڑتے تو شاید ٹوئن ٹاورس 40منزل تک تیار ہوجاتے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو زمین سوسائٹی کے پارک کیلئے چھوڑی گئی تھی، اس پر فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت کس نے اورکیسے دی؟ اور کیا اس معاملہ سے مستقبل میں انتظامیہ اوربلڈرز سبق حاصل کریں گے ؟ دراصل وطن عزیز کا ایک بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس کی وجہ سے بہت سے غیرقانونی کام ہوتے رہتے ہیں اوران کا خمیازہ کبھی کام کرنے والاتو کبھی دوسرے لوگ بھگتے ہیں،اسی کا بہت بڑا نمونہ ٹوئن ٹاورس تھے جن کے انہدام کو دوسروں کیلئے سبق بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ یہ معاملہ عبرت بن سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS