محمد حنیف خان
حکومت کے آٹھ برس مکمل ہونے پر جس طرح سے وزیراعظم نریندر مودی کے طریقہ حکومت کی تعریف میڈیا میں کی گئی ہے، اس نے جمہوریت پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کر دیاہے۔سرکاری اداروں کو جس طرح سے اس حکومت میں یرغمال بنایا گیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق نوکرشاہ آئی اے ایس انل سوروپ نے اپنی کتاب ’’No More A Civil Servent‘‘میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر ’پی ایم او ‘ کامزاج سبھی وزارتوں پر کنٹرول رکھنے کا ہے۔انہوں نے اس کو اقتدار کا مرکز بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ آزادانہ طور پر فیصلے لینے کی جگہ گھٹ رہی ہے،کیونکہ پی ایم او نے بہت سی جگہوں پر قبضہ کر لیا ہے،یا تو وزارتوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے یا پی ایم او نے اس پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کے مطابق پی ایم او ان جگہوں پر قابض ہو گیا ہے جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے۔پہلے وزرا خود فیصلے لیتے تھے مگر اب ایک پریس کانفرنس کے لیے پی ایم او سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔مرکزی حکومت کا یہ طریق کار ہے۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ آٹھ برسوں سے کار حکومت کس طرح انجام پا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی حکومت جس ٹریک پر جا رہی ہے وہ جمہوریت کا نہیں ہے،اس نے نعرہ تو ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘کا دیا تھا جس میں سال در سال وہ ’سب کا وشواس ‘ اور ’سب کا پریاس‘کا اضافہ کرتی گئی لیکن عمل اس کے برعکس ہوئے جس کے نتائج بھی یک رخے آتے گئے اور اس وقت بھی وہ اپنی اسی روش پر عمل پیرا ہے۔آئین ہند نے ہر طبقہ و مذہب کو اپنے مذہبی امور کی انجام دہی اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے، اس کے باوجود تین طلاق کے خلاف قانون بنا دیا گیا،1991میں مذہبی قانون متعارف ہونے کے باوجود عدالتوں میں مساجد کے خلاف مقدمے چل رہے ہیں اور مساجد کی طویل فہرست ہے جس پر قبضے کا منصوبہ ہے،لوگ ان میں شیولنگ تلاش کر رہے ہیں اور ’جل ابھشیک ‘کے لیے پہنچ رہے ہیں، جس سے ماحول خراب سے خراب تر ہو رہا ہے مگر حکومت خاموش ہے،کیونکہ اس میں اس کو اپنا سیاسی فائدہ دکھائی دیتا ہے جس سے وہ سمجھوتہ نہیں کر سکتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کی پشت پر مضبوط ہاتھ نہ ہوتے تو ورشپ ایکٹ1991کی موجودگی کے باوجود ان میں ہمت نہ ہوتی لیکن یہ کھلے عام اس بات کا اعلان کر رہے ہیںکہ ہمیں اب ان مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنا ہے،سوشل میڈیا پر پارلیمنٹ میں بنائے گئے اس قانون کے خلاف ایک طوفان ہے مگر حکومت خاموش ہے اور انتظامیہ کا آئی ٹی سیل ایسے کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی سے دست کش ہے۔
کسی بھی ملک کے جھنڈے سے بڑی کوئی اس کی عظمت کی نشانی نہیں ہو تی ہے، اگر کوئی شخص جھنڈے کی توہین کرتا ہے تو اس کے خلاف ملک دشمنی اور اس سے بغاوت کا مقدمہ چلتاہے، مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہے،بی جے پی کے لیڈر اور کرناٹک کے سابق وزیر ایشورپا کھلے عام ترنگے کی توہین کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ’’ آر ایس ایس کا بھگوا جھنڈا ایک دن قومی جھنڈا بنے گا،انہوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایس بھگوا جھنڈے کو سامنے رکھ کر پوجتا ہے۔ اس سے قبل بھی وہ یہ بیان دے چکے ہیں آج نہیں تو کل ہندوستان ہندو راشٹر بنے گا۔یہ تنہا نہیں ہیں،ان کے ساتھ ایک جم غفیر ہے جو اسی خیال کا حامی ہے لیکن وزیراعظم سمیت وزارت داخلہ خاموش ہے۔لیکن دوسری طرف زبان کھولنے پر بھی برسوں لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود وزیراعظم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں کوئی ایسا کام نہیں ہو ا جس سے کسی بھی ہندوستانی کا سر شرم سے جھکے۔خیر وہ دعویٰ کرسکتے ہیں کیونکہ کوئی انہیں اس سے نہیں روک سکتا ہے لیکن کم از کم ان کو آئینہ ضرور دکھایا جا سکتا ہے۔
مرکزی حکومت بہت تیزی سے ایک ایسے ٹریک پر جا رہی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کرناٹک کے ممبر اسمبلی ایشورپا نے ہندو راشٹر کی بات ہوا میں یا جوش میں آکر نہیں کہی ہے بلکہ اس منصوبے کا انہیں ٹھوس علم ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آئینی عہدے پر رہتے ہوئے وہ بار بار ایسے بیانات نہ دیتے، ان میں اور موجودہ مرکزی حکومت میں بس فرق اتنا ہے کہ ایک زبان کھول رہا ہے اور دوسرا عمل پر توجہ دے رہا ہے۔اتراکھنڈ کی بی جے پی یونٹ نے اسمبلی الیکشن سے قبل اپنے انتخابی منشور میں ریاست میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔الیکشن میں کامیابی کے بعد اس پر کام بھی شروع ہوگیا اور کمیٹی بھی بنا دی گئی۔اس وقت بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں مرکز کا کوئی ہاتھ نہیں ہے کیونکہ یہ اعلان ریاستی یونٹ نے کیا تھا اور مرکز بھی اس سلسلے میں خاموش تھا حالانکہ اس طرح کی قانون سازی صرف ریاستوں کا معاملہ نہیں ہے لیکن اب جو خبریں آ رہی ہیں، ان سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ یہ اعلان ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تھا اور اترا کھنڈ کو لیباریٹری بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ میں قانون لانے کی تیاری شروع کردی ہے۔یہ بل کسی بھی وقت پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔تجربے کے لیے اتراکھنڈ میں اس قانون کو بنانے کا عمل شروع کیا گیا ہے جس کے لیے کمیٹی بنائی جا چکی ہے،اہم بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کیلئے ڈرافٹنگ نکات خود مرکزی وزارت قانون نے دیے ہیںجس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قانون کا ڈرافٹ مرکزی حکومت کے پاس تیار رکھا ہوا ہے۔منصوبہ یہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں بنائے گئے یکساں سول کوڈ کو بعد میں مرکزی قانون میں ضم کردیا جائے گا تاکہ وہ ملک کا یکساں سول کوڈ بن سکے۔ یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں یہ پہلی بار ہے جب حکومت نے اتنی وضاحت کے ساتھ اپنی بات کہی ہے۔مرکزی حکومت کا منصوبہ تھا کہ وہ اس سلسلے میں نیشنل لاء کمیشن سے رپورٹ لینے کے بعد آگے قدم بڑھائے لیکن 2020میں کمیشن کی تشکیل کے باوجود عملی سطح پر آگے نہیں بڑھ سکا اس لیے اب ریاستی سطح پر کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں،جس میں سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا دیسائی،دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج پرمود کوہلی، سابق آئی اے ایس شترگھن سنگھ اور دون یونیورسٹی کی وائس چانسلر سریکھا ڈنگوال وغیرہ شامل ہیں۔ اتراکھنڈ کے بعد یہ کمیٹیاں اترپردیش، مدھیہ پردیش اورہماچل پردیش میں بنائی جا سکتی ہیں کیونکہ ان میں بی جے پی اقتدار میں ہے اور ان ریاستوں نے یکساں سول کوڈ کی منظوری بھی دے دی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک طرف مرکزی حکومت ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس،سب کا وشواس اور سب کا پریاس ‘ کا نعرہ دیتی ہے تو دوسری جانب وہ یک رخی چال کیوں چلتی ہے؟کیا اس کو اس حقیقت کا علم نہیں ہے کہ ہندوستان میں صرف اکثریت نہیں بستی ہے،یہ متعدد مذاہب اور اس کے ماننے والوں کا گہوارہ ہے،ہندوستان کے گلدستے میں نوع بنوع پھول ہیں جو اپنے اپنے متضاد رنگوں سے اس کو گلدستہ بناتے ہیں۔آخر کوئی حکومت کیسے ایک ایسی یک رخی چال چل سکتی ہے جس سے نہ صرف جمہوریت پر خطرہ لاحق ہوجائے بلکہ وہ آئین کے بھی منافی ہو۔چونکہ جمہوریت میں سر گنے جا تے ہیں اور بی جے پی کے پاس پارلیمنٹ میں شماریاتی طاقت بھی ہے،جس کے دم پر وہ طلاق بل کی طرح یہ قانون بھی لا سکتی ہے اور بابری مسجد کی طرح دوسری مساجد پرعدالتوں کے ذریعہ اکثریت کے قبضے میں لانے کا سہرا لے سکتی ہے لیکن اس کے نتائج کیا ہوں گے؟مجھے لگتا ہے آر ایس ایس،بی جے پی اور مرکزی حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ جن خطوط پر چلنے کا انہوں نے فیصلہ کیا ہے اور جیسا ہندوستان بنانے کا عزم کیا ہے، اس میں یک رنگی اور یک مذہبیت ہوگی،وہ تنوع سے خالی ہوگا۔لیکن یہ ملک سے محبت کرنے والوں اور جمہوریت میں یقین رکھنے والوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو کیسا ہندوستان سونپ کر جائیں گے،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کو اس یک رنگی سے بچایا جائے اور اس کو خوبصورت بنائے رکھنے کے لیے سڑک سے پارلیمنٹ تک لڑائی لڑی جائے، اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
[email protected]