سکم : تباہی کاذمہ دار ۔۔۔قدرت یا انسان؟

0

سکم میں برفانی جھیل پر بادل کے پھٹنے سے تیستا ندی میں آنے والا سیلاب یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ اگر اب بھی ایسی قدرتی آفات سے سبق نہیں لیاگیاتو مستقبل میں اس سے بھی زیادہ ہولناک نتائج بھگتنے ہوں گے۔تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ ملک کے ہمالیائی علاقوں میں ایسی قدرتی آفات کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے۔اس کی وجہ ممکن ہے گلوبل وارمنگ ہو لیکن بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیاں بھی اس کیلئے ذمہ دار ہیں۔ سکم میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، انسانی سرگرمیاں اورزیادہ کھلے لفظوں میں قدرتی وسائل کو لوٹنے کی انسانی ہوس کا نتیجہ ہی کہاجاسکتا ہے۔
سکم میں بادل پھٹنے کی وجہ سے آنے والے سیلاب میں تیستا ندی پر13ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا گیا60میٹر اونچا ڈیم صرف 10سیکنڈ کے اندرپانی میں بہہ گیا۔ اس ڈیم کی تعمیر میں 20برس لگے تھے۔اس واقعہ میں40سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 24فوجی جوان بھی شامل ہیں۔ 10ہزار سے زیادہ افراد کو ان کے گھروں سے منتقل کردیا گیا ہے۔ دریا سے متصل علاقہ میں ہی فوج کا کیمپ بھی تھا جو سیلاب کی زد میں آکر بہہ گیا۔سیلاب کی وجہ سے ریاست کو ملک سے جوڑنے والی قومی شاہراہ این ایچ-10 بھی بہہ گئی، ٹرانسپورٹ سہولت ٹھپ ہوگئی اور سکم کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ ختم ہوگیا۔اسرو نے جھیل کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کی ہیں، جس میں بادل پھٹنے سے پہلے، اس کے درمیان اور جھیل کا سارا پانی نکالنے کے بعد کی صورت حال کو دکھایا گیا ہے۔ جھیل سے پانی اترا تو اپنے ساتھ بہت سا ملبہ اور پتھر بھی لے آیا۔ دریائے تیستا جو سبز رنگ میں نظر آتا تھا، پیلے رنگ اور کیچڑ میں بہنے لگا۔
پہاڑوں پر زندگی ویسے ہی ایک آفت کی مانند ہوتی ہے لیکن عام حالات میں پہاڑوں پر رہنے والے حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں لیکن اگر سیلاب آجائے تو پہاڑیوں کی زندگی ہی ختم ہوجاتی ہے۔اس سیلاب کی وجہ سے سکم کے لوگ بجلی اور پینے کے پانی کے بغیر ابھی زندگی گزار رہے ہیں۔سکم میں ہوئے اس واقعہ کا اثر مغربی بنگال کے شمالی اضلاع میں بھی پڑا ہے۔پانی کے بہائو کی وجہ سے تیستا ندی میں پانی کی سطح میں ایک ہی لمحے میں 15-20 فٹ تک اضافہ ہوگیا۔ اس کی وجہ سے شمالی بنگال میں تیستا ندی کا پانی پڑوسی اضلاع دارجلنگ، کالمپونگ، سلی گوڑی اوراطراف میں بھی پھیل گیا ہے اور وہاں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
اس واقعہ نے سکم کے آس پاس کے برفانی علاقوں کے ماحولیاتی نظام کی حساسیت، شدید موسمی واقعات کے امکان، بنیادی ڈھانچے کی تیزی سے تعمیر، ترقیاتی اسکیموں اور موسمیاتی موافقت کی کوششوں کی کمی کے بارے میں بھی بڑے سوالات اٹھائے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سکم سمیت پورا شمالی بنگال اور دارجلنگ، کالمپونگ وغیرہ جیسے علاقے اسی طرح کی نام نہاد ترقیاتی اسکیموں سے متاثر ہیں۔
یادرہے کہ سکم میں 320 برفانی جھیلیں ہیں۔ لوناک جھیل، جس پر بادل کے پھٹ پڑنے سے سیلاب آگیا، وہ سطح سمندر سے 17,000 فٹ کی بلندی پرواقع ہمالیائی علاقے کی ان 14 گلیشیر جھیلوں میں سے ایک ہے جو پہلے ہی پھٹنے کے خطرے سے دوچار تھیں۔ اس جھیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طوفانی سیلاب کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس جھیل کا رقبہ مسلسل بڑھ رہا تھا کیونکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیر مسلسل پگھل رہا ہے۔ پگھلتے گلیشیر کا پانی اس جھیل میں جمع ہو رہا تھا لیکن اس جھیل کی دیواریں اتنے پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب جھیل پر بادل پھٹا تو پانی کے دباؤ سے اس کی دیواریں ٹوٹ گئیں اور دریائے تیستا میں طغیانی آگئی۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں صرف ڈھیلی مٹی اور مورین نامی ملبے سے بنی ہیں۔ اگر یہ ٹوٹ جاتے ہیں، تو یہ نیچے کی طرف تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن ارضیاتی اور ماحولیاتی سائنسدانوں کے انتباہات کے باوجود ان خدشات کے ازالہ کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اوراس کے برخلاف سکم کے پہاڑوں اور جھیلوں پر کئی ترقیاتی پروجیکٹ شروع کردیے گئے۔ غیر منصوبہ بند اور اندھا دھند تعمیرات، کان کنی اور سیاحت کے مواقع بڑھانے کارجحان کم نہیں ہوا۔حکومت بھی سیاحوں کی تعداد بڑھانے کیلئے مسلسل کوشاںرہی چنانچہ من مانے طریقے سے پہاڑوں اور جنگلوں کو صاف کرکے سڑکیں، ہوٹل اور ریزورٹس وغیرہ بنائے جانے لگے۔ ماحولیات کا پوراایکو سسٹم دائو پر لگادیاگیا۔ترقی کے نام پر منافع کی ہوس میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا یہی نتیجہ ہوناتھا جو سکم میں ہوا۔
یہ خوفناک واقعہ صرف ایک وارننگ ہے اگراب بھی ماحولیات کی حفاظت کی کوشش نہیں کی گئی تو ملک کے ہمالیائی خطہ میں ہونے والی تباہی کو ہم نہیں ٹال سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS