خدا پرستی کی نشانیاں

0

مولانا عبدالحفیظ اسلامی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو،خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو،نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو،نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں،نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم( کعبہ) کی طرف جارہے ہوں۔ ہاں احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔ گزشتہ مضمون میں یہ بات آئی تھی کہ اہل ایمان اپنے عہد و پیمان اور تمام معاہدات کی پابندی کریں، جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اور مقرر کردہ حلال و حرام کی بندشوں کی پابندی ایمان لانے والے بندوں پر لازم ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی بتلائی گئی تھی کہ چوپائے مویشی، جانور تمہارے لئے حلال ہیں اور اس بات کی بھی تاکید فرمائی گئی کہ احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ جانو۔
اس طرح اب آگے آیت نمبر ۲ میں مزید آداب سکھلائے جارہے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ خدا پرستی کی نشانیوں کی تعظیم ہر مسلمان پر ضروری ہے: ’’اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو‘‘ یہ لفظ دراصل شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت یعنی آنکھو ںدیکھے جانے والی چیزیں اور محسوس کی جانے والی باتیں وغیرہ۔ اللہ تبارک تعالیٰ یہاں پر جن ’’شعائر‘‘ کی طرف اہل ایمان کو متوجہ فرما رہے ہیں یہ شعائر حج سے متعلق ہیں غرض کہ شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد آگے کے فقرے میں چند خاص شعائر کا نام لے کر ارشاد ہورہا ہے‘‘ نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو۔سال کے کل مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن کے چار مہینے ادب والے ہیں (۱) ذی القعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم (۴) رجب جیسا کہ سورۃ توبہ ارشاد ہوا ہے اور ان میں چار مہینے حرام ہیں یعنی ادب کے ہیں۔
تفاسیر کے مطالعہ سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ مذکورہ چار مہینوں کا ادب و احترام حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہی چلتا آرہا ہے اور اسلام کے ظہور میں آنے سے ایک عرصہ قبل تک بھی لوگ ان مہینوں کا لحاظ کرتے رہے اور ان مہینوں میں نہ جھگڑا کرتے اور نہ ہی خونریزیاں ہوا کرتیں لیکن عرب کی جاہلت جب اپنی انتہا کو پہنچ چکی تو لوگ ان ادب والے مہینوں کا پاس و خیال رکھنا چھوڑ دیئے اور خود ساختہ طریقے پر عمل کرتے ہوئے ’’نسی‘‘کی رسم نکالی گئی اور جب چاہتے حرمت والے مہینوں کی ترتیب میں الٹ پھیر کرتے اور اللہ نے جن مہینوں کو ادب والے مہینے قرار دیا ہے اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ایک قبیلہ دوسرے پر چڑھائی کرتا اور کسی چیز کا انتقام لینا ہوتا تو لے لیتا۔ اس طرح اللہ تبارک تعالیٰ عرب کے ان جاہلانہ طرز عمل سے اہل ایمان کو بچانے کیلئے حکم فرمایا ہے کہ ادب والے مہینوں کو بے حرمت نہ کرو۔
’’قربانی کے جانور اور ان کا احترام ‘‘
آیت مبارکہ میںتیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خدا وندی کی علامت کے طور پر پٹہ پڑے ہوئے ہوں۔ قربانی کے جانوروں سے متعلق یہاں دو باتیں بیان ہوئی ہیں۔
(۱) ’’ھدی‘‘ ایسے جانور کو کہتے ہیں جو قربانی کیلئے حاجی اپنے ساتھ حرم کو لے جاتے ہیں۔
(۲) قلادہ کی جمع قلائد ہے، اس طرح قلادہ کے معنی پٹے کے ہوئے غرض کہ حرم مکہ میں قربان ہونے والے،نذر خداوندی کیلئے لیجائے جارہے ان جانوروں کو نہ روکو، اور نہ ہی ان کے ساتھ بے حرمتی کا معاملہ کرو جن کے گلوں میں پٹے پڑے ہوئے ہوں خلاصہ یہ کہ ان قربانی کے جانوروں کو کسی سے چھینا جائے اور نہ ہی حرم شریف تک پہنچے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔
اس سلسلہ میں مفسرین کرام نے جو تحریریں فرمائی ہیں اسے مختصر طور پر نقل کیا جاتا ہے۔
’’شعائر اللہ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں‘‘۔
’’یاد رکھنا چاہئے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی مکہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصہ سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کیلئے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS