بی جے پی کی سمت ورفتار میں بڑی تبدیلی کے آثار

0

گزشتہ دنوں پہلے پانچ ریاستوں کے انتخابات میں سے تین میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی ایک نئی حکمت عملی اختیار کررہی ہے۔ گہری ریسرچ اور دور اندیشی پر مبنی اس حکمت عملی کی اساس نئی نسل کو اور نئی قیادت کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ پارٹی میں اجتماعی قیادت کے رجحان کو ترقی اور فروغ دینا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت بی جے پی نے اپنے کوٹے کی خالی راجیہ سبھا کی 28سیٹوں میں سے موجودہ 24 ممبران پارلیمنٹ کو ٹکٹ نہیں دینے کا فیصلہ کیاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی 24سیٹوں پر نئے راجیہ سبھا ممبران کو نامزد کرے گی اور پارٹی نے صرف چار ہی موجودہ ممبران کو دوبارہ نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سات مرکزی وزراء ہیں۔ جن مرکزی وزرا کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے ان میں اہم نام مرکزی وزیر برائے صحت منسکھ منڈوایہ (گجرات)وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان (مدھیہ پردیش) مرکزی وزیر برائے آئی ٹی راجیو چندر شیکھر(کرناٹک)شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مرکزی وزیر برائے ماحولیات بھوپیندر یادو (راجستھان) مرکزی وزیر برائے ماہی پروری پروشوتم روپالا (گجرات) چھوٹے اور درمیانہ درجے کے صنعتی اداروں کے وزیر نرائن رانے اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن شامل ہیں۔
آخر الذکر دونوں مہاراشٹر سے تعلق رکھتے ہیں اور وہیں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ مذکورہ بالا تمام وزرا کو پارٹی لوک سبھا انتخابات میں ٹکٹ دے گی یہ بی جے پی کی بڑی پالیسی ساز تبدیلی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دھرمیندر پردھان کو سنبھل پور یا اڈیشہ کے ہی دھیکنال پارلیمانی حلقوں سے کھڑاکیا سکتا ہے۔ دھرمیندر پردھان اڈیشہ سے نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ بھوپیندر یادو راجستھان کے الور یا مہندر گڑھ سے لوک سبھا کی سیٹوں کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے بھیجا جاسکتا ہے اسی طرح کرناٹک سے تعلق رکھنے والے موجودہ مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر کو بنگلورو کے کسی بھی حلقے سے امیدوار بنا یا جاسکتا ہے۔ بنگلور و میں تین پارلیمانی حلقوں وسطی ، وشمالی یا جنوبی سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ ذرائع کے مطابق مرکزی وزیر منسکھ منڈاویہ جو گجرات سے تعلق رکھتے ہیں ان کو بھائو نگر یا سورت سے ٹکٹ دیا جاسکتا ہے ، جبکہ روپالا کو راجکوٹ پارلیمانی حلقے سے میدان میں اتارے جانے کی قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ وی مرلی دھرن کو اپنے ہی آبائی صوبے میں کسی پارلیمانی حلقے سے الیکشن لڑنے کی ہدایت دی جاسکتی ہے۔
بی جے پی نے جن ممبران پارلیمنٹ راجیہ سبھا کو دوبارہ ایوان بالا سے منتخب کیے جانے کا امکان ہے ان میں دو وزراء ہیں ۔ ایک وزیر ریلوے اشونی ویشو (اڈیشہ)اور وزیر ماہی پروری ایل مورگن (مدھیہ پردیش)ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن ممبران پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو دوبار راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا گیا ہو۔
بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کو دوبارہ نامزد کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ راجیہ سبھا کی ہماچل پردیش کی ایک سیٹ سے منتخب ہوئے تھے اورہماچل پردیش میں بی جے پی ہار گئی تھی ۔ نڈا اب گجرات سے راجیہ سبھا کے ممبر ہوں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ راجیہ سبھا کے لیے جو ممبران نامزد کیے جار ہے ہیں ان میں ایک کانگریس کو خیرباد کرنے والے لیڈر بھی شامل ہیں ان میں سے ایک کا نام اشوک چوان ہے۔ اشوک چوان سابق مرکزی وزیر وائی بی چوان کے بیٹے ہیں۔ وائی بی چوان نرسمہارائو کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے۔ راجیہ سبھا کی یعنی 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے دوران وائی پی چوان ہی وزیر داخلہ تھے۔ یہ سیٹیں ماہ اپریل میں خالی ہورہی ہیں ۔
مجموعی طو رپر خالی ہونے والی نشستوں کی تعداد 56 ہے۔ ان انتخابات اور نامزدگی کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی نئی نسل کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کی حکمت عملی اقتدار کو چند ہاتھوں میں سمیٹنے کی نہیں ہے بلکہ نئے نسل اور نئے چہرے کو کام کرنے کا موقع دینے کی ہے۔ پارٹی اس طرح سے لیڈر شپ کی ساخت اور سمت دنوں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی اقتدار کا پورا فائدہ اٹھانے اور اس دور کو اپنی پارٹی کی ترقی اور توسیع کے لیے استعمال کرناچاہتی ہے۔ اس کا مقصد اپنے حکمت عملی کے مطابق سماجی تانے بانے کو تبدیل کرنا ہے۔ اس پر بی جے پی کے پارٹی سازوں نے پچھلے پانچ ریاستوں کے الیکشن میں تجربہ کیا تھا جو کامیاب رہا اور اسی تجربے کی بنیاد پر اس نے مدھیہ پردیش میں دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیابی حاصل کی اور اسی فلسفے کی بنیاد پر چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کو بے دخل کرکے اپنی حکومت بنائی ہے۔
قارئین کو یادہوگا کہ مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی لوک سبھا کے ممبران پارلیمنٹ کو ان ریاستوں میں بڑی ذمہ داریاں سونپی تھیں اور کئی مرکزی وزیروں کو ان ریاستوں میں تعینات کیا گیا تھا اور الیکشن لڑایا گیا تھا ، بی جے پی اس حکمت عملی کے سبب مدھیہ پردیش میں اینٹی انکمبنسی کو ختم کرپائی۔ اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے پارٹی نے پارٹی کے اندرونی خلفشار اور اقربا پروری کے جذبات پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ وہ بی جے پی دوسری پارٹیاں چھوڑ کر آنے والوں کو بھی مایوسی نہیں کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی پر الزام لگتا رہاتھا کہ وہ دوسری پارٹیوں سے لائے گئے لیڈروں کو اہمیت نہیں دیتی ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی ان ریاستوں میں اقتدار میں قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، جن کو کانگریس اپنے قیام کو برقرار اور دوبارہ حکومت قائم کرنے کا یقین تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS