حزب اختلاف کی اتحادی دیوار’’ انڈیا‘‘ میں شگاف کے آثار: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

جی ہاں! آپ نے بالکل صحیح سنا۔ اپوزیشن کی اتحادی دیوار جو گزشتہ دنوں تک بہت مضبوط و مستحکم نظر آرہی تھی، اب اس اتحادی دیوار میں جگہ بہ جگہ شگاف پڑتے نظر آرہے ہیں۔دیوار کا ایک سوراخ کسی طرح بند کرتے ہیں تو دوسری جگہ کی اینٹ کھسک جاتی ہے۔اتحادی دیوار جو ابھی بمشکل پانچ چھ ماہ قبل تعمیر ہوئی تھی،اتنی جلدی انانیت اور مطلب پرستی کی نذر ہوتی دکھائی دے گی،کسی کو پتہ نہیں تھا۔عوام جس میں حکمراں جماعت کے خلاف ایک مضبوط دیوار ’انڈیا‘ کے کھڑے ہونے سے امید کی ایک کرن جاگی تھی اور حوصلے کاایک درس ملا تھا،اب مایوسی اور نامرادی میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اتحادی دیوار بنانے کے کام میں کانگریس کے علاوہ جو لوگ لگے ہوئے تھے،وہی اس کام سے ہاتھ دھوتے نظر آرہے ہیں۔پہلے سماج وادی کے نخرے،پھر لوک دل کے پینترے،ممتا کا جادوٹوٹکا اور نتیش کمار کا پلٹ وار،اتنے حملے بیچاری دیوار کیسے سہ پاتی۔نتیجہ یہ ہوا کہ دیوارمیں جا بہ جا شگاف نظر آنے لگے ہیں۔بہار میں دیوار سے اینٹیں باہر نکل گئی ہیں۔دوسرے حکمراں جماعت کی عیارانہ چالیں۔ مہا راشٹر میں مضبوط شیوسینا کی حکومت کو نہ صر ف منہدم کرنا بلکہ شیوسینا جیسی مضبوط و مستحکم دیوار کے دو حصے کر دینا اور ایک حصے،شندے گروپ کا تعاون کرنا اور اپنی سپورٹ سے سرکار بنوانا۔دراصل بی جے پی میں کچھ لوگ اسی کام میں شب و روز لگے رہتے ہیں کہ این ڈی اے کی مخالف صوبائی حکومتوں کو گرایا جائے، خواہ کیسے بھی ہو۔ روپے پیسے، چالاکی، انتخابات میں بد عنوانی، ایک دوسرے میں لڑائی جھگڑا کراکے،حکومت کا نشہ پلا کے۔اسی طرح انہوں نے انڈیا سے مہاراشٹر،راجستھان اور بہار الگ کیے۔اب جھارکھنڈ پر بی جے پی کی محنت جاری ہے۔ جینت چودھری پر بھی جال پھینکاگیا ہے۔چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن خطاب دینا،جال اور چال ہی ہے۔
اُدھر ممتابنرجی اور اکھلیش پر اپنی طاقت اور عوامی حمایت کا نشہ سوار ہے۔مایاوتی ابھی تک مانی نہیں ہیں۔ان کو منانے کی ذمہ داری اکھلیش یادو کے کاندھوں پر ہے،وہ اندر خانے نہیں چاہتے کہ مایاوتی بھی انڈیا کا حصہ بنیں۔ ممتابنرجی اوراکھلیش میں فرق ہے۔ممتا بنرجی تو تین بار کی وزیراعلیٰ ہیں۔ ایک بار مرکزی حکومت میں ریلوے کی وزیر رہ چکی ہیں۔ دورنتو ایکسپریس کا نظام ان کی دین ہے۔ایک سیاسی جماعت ’ترنمول کانگریس‘ کی بانی اور سپریمو ہیں۔ بنگال میں انہیں زبردست عوامی حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں وہ بی جے پی کے طوفان کا کامیابی سے مقابلہ کرچکی ہیں۔وہاںبی جے پی کو منھ کی کھانی پڑی تھی۔ اکھلیش ایک بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ملائم سنگھ یادو کی محنت اور جانفشانی سے بنائی ہوئی پارٹی ’سماج وادی پارٹی‘ کے صدر ہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی بھرپور حمایت کے باوجود ان کا کیا حشر ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔مانا کہ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کی جڑیں کافی مضبوط اور گہری ہیں،لیکن اترپردیش میں بی ایس پی کو نظر انداز کرکے بی جے پی کے خلاف کامیابی حاصل کرنا،ایک خواب ہی ہے۔یوں بھی ممتابنرجی اور اکھلیش کے سیاسی تجربے میں کافی فرق ہے۔
کانگریس اتحادی دیوار میں سیمنٹ،گارے اورپانی کا کام کررہی ہے۔بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم دینا اور سب کو اس پر جمع کرنا،واقعی ہمت اور جرأت کا کام ہے۔ کانگریس نے جمہوری نظام قائم رکھتے ہوئے پارٹی الیکشن کرائے۔پارٹی انتخاب میں راہل گاندھی امیدوار ہوسکتے تھے، مگر نہیں ہوئے۔ ملکارجن کھرگے کانگریس کے صدر بنے،جو سائوتھ کے ہیں اور پسماندہ طبقے سے ہیں۔کانگریس کو ملک کی شبیہ کی فکر ہے۔ سیکولرازم کو زندہ رکھنے کے لیے وہ کوشاں ہے۔پورے ہندوستان کو جوڑنے کے لیے راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے کنیا کماری سے کشمیر تک کی ’بھارت جوڑویاترا‘ کی۔اب پھر راہل کی رہنمائی میں کانگریس ’ نیائے یاترا‘ میں مصروف ہے۔آسام کے وزیراعلیٰ نے ریلی کو روکنے اور فساد پھیلانے کی بہت کوشش کی، مگر ہر کوشش ناکام ہوئی اور کانگریس ہی کو فائدہ ہوا۔ کانگریس ہر طرح سے حکومت کی بات کا جواب دیتی ہے۔سبھی علاقائی پارٹیاں کانگریس کو کم آنک رہی ہیں،جبکہ صرف کانگریس ہی وہ پارٹی ہے جو قومی سطح کی پارٹی ہے اور بی جے پی کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہے۔ وہ اگر علاقائی پارٹیوں کو ملا کر اتحاد بنا رہی ہے تو اس میں ملک کا مفاد ہے۔ملک کی شبیہ کا سوال ہے۔ایسے میں سبھی پارٹیوں کو کانگریس کا ساتھ دینا چاہیے۔
بی جے پی بہت ہی شاطر ہے۔ کانگریس نے سوچا تھا کہ حکومت تو آتی جاتی رہتی ہے۔ پانچ سال بعد انتخاب ہوگا اور وہ زور آزمائی کرے گی،مگر کانگریس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ بی جے پی عوام کے دلوں میں زہر گھول کر یہاں سے قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم کرکے اکثریت کو رجھائے گی اور مذہب کے نام پرحکومت پر ہمیشہ کے لیے قابض ہوجائے گی۔ملک کی سبھی سیاسی پارٹیوں کو یہ احساس ہے کہ اس بار اگر بی جے پی ہندوستان پر قابض ہوگئی تو پھر ملک کو ان کے چنگل سے نکالنا تقریباً نا ممکن ہوگا۔یہ احساس تو سب کو تھا مگر کانگریس نے اس معاملے میں پہل کی۔اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی بنیاد رکھی۔’انڈیا‘ میں شامل جماعتوں کے نام،تعداد اور جو ش و خروش دیکھ کر این ڈی اے کے خاص کر بی جے پی کے ہوش اڑ گئے تھے۔’انڈیا‘ جیسا خوبصورت نام،وہ لوگ کف ِافسوس ملتے رہ گئے۔ ان کی مجبوری تھی کہ انہوں نے ’انڈیا‘ کی برائی اور ہندوستان کو بھارت کہنا شروع کر دیا۔لفظ ’انڈیا‘ والے بہت سے نام بدل دیے۔’وکست بھارت‘ اور دیگرنام سے بی جے پی نے کام شروع کردیے۔ انہیں ’انڈیا‘ نام اور اس میں شامل جماعتوں سے خوف آنے لگا،لیکن یہ ڈر اور خوف عارضی تھا،انہوں نے ’انڈیا‘ کو کمزور کرنے کی چالیں چلنی شروع کردیں۔’انڈیا‘ کے مضبوط عناصر کو منتشر کرنے کو انہیں کئی طرح کے لالچ دیے گئے۔جو لالچ میں آنے والے نہیں تھے، انہیں ڈرایا،دھمکایا گیا۔ای ڈی،سی بی آئی اور مختلف خفیہ تنظیموں کو ان کے پیچھے لگا دیا۔ای ڈی یا سی بی آئی نے کبھی بی جے پی یا اس کی حلیف جماعتوں کے یہاں چھاپے نہیں مارے، نہ انہیں جیل کے رستے دکھائے۔یہ سب کیا ہے؟ بیلٹ پیپر سے انتخابات کرانے کے سیاسی پارٹیوں اور وکیلوں کے مطالبے پر سپریم کورٹ کان بھی نہیں دھرتا۔جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بیلٹ پیپرز سے انتخاب ہونے پر نتائج الگ ہی ہوں گے۔مگر بی جے پی والوں کو اس کا علم ہے کہ ہر جگہ ان کے لوگ ہیں،لہٰذا جیسا وہ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ ’انڈیا‘کتنے ہی ہاتھ پائوں مار لے،جیت تو ان کی ہی ہوگی۔
کہیں ایسا نہ ہو ’انڈیا‘ کا مقصد ناکام ہو جائے۔ ’انڈیا‘ میں شامل جماعتوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا تو این ڈی اے کی عمارت منہدم ہوسکتی ہے۔کوئی بھی کام ارادوں کی پختگی، عمل اور آپسی اتحاد سے ممکن ہوسکتا ہے۔ کانگریس جو ہر طرح ’انڈیا‘ کے مستقبل کے لیے اپنوں کے سامنے دبنے کو بھی تیار ہے۔مگر اس کو زیادہ نہ دبائیں۔یاد رکھیں بی جے پی کو اگر شکست دینا ہے اور اس ملک کی شبیہ کو بچانا ہے تو سب کو ’انڈیا‘ میں متحد رہنا ہے۔ اپنا غرور، خودداری اور انانیت، سب کی قربانی دینی ہوگی۔ عوام کو بھروسہ دلانا ہوگا کہ ان کا ووٹ بیکار نہیں جائے گا۔اکیلا چنا کبھی بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔
اپنی اپنی ریاست میں ’انڈیا‘ کو مضبوط بنائیں۔ کانگر یس کی ذمہ داری ہے کہ وہ صبر سے کام لے۔وہ ’انڈیا‘ میں سب کو ملائے۔ہندو، مسلمان، یادو، آدی واسی، سکھ، پسماندہ ذاتیں، جنوبی لوگ، آسامی، بنگالی، مراٹھی، اڑیا، کسان غرض ’انڈیا‘ عملی طور پر انڈیا، ہندوستان اور بھارت لگے۔ ’انڈیا‘ کی کسی سے دوری انہیں بھاری پڑ سکتی ہے۔کانگریس کی ایک اور اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اتحادی دیوار میں آئی شگاف اور کھسکی اینٹوں کو واپس اپنی جگہ لانے کی کو شش کرے اور این ڈی اے میں بھی سیندھ لگائے، انہیں توڑنے اور ’انڈیا‘ میں ملانے کی کوشش کرے۔سبھی سیاسی پارٹیوں کو ’انڈیا‘ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،ایسا نہ ہو کہ عوام ٹھگے سے رہ جائیں،بد دل ہوجائیں اور ان کے پاس کوئی متبادل نہ بچے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS