عزائم
سر، “آپ مجھے میرے دونوں بیٹوں کی ٹی سی دے دیجئے ۔ اب میں انھیں اسکول پڑھا نا نہیں چاہتا ہوں۔ وہ کچھ محنت مزدوری کرینگے تو گھر کے اخراجات میں آسانی ہوگی۔” ذاکر نے خالد سر سے درخواست کی۔ “آپ میرا آفس میں انتظار کریں۔ میں تھوڑی دیر بعد وہاں آتا ہوں۔ ہم وہی پربات کرینگے۔” یہ کہہ کر سر جماعت میں داخل ہوگئے۔ وقفے کے بعد آفس میں آتے ہی خالد سر نے ذاکر سے پوچھا، مجھے اطمینان سے پوری بات بتاؤ کیا ہوا۔ کیوں تم اپنے ہونہار بچوں کی تعلیم روکنا چاہتے ہو؟ ان کا مسقبل روشن ہیں۔ یہ میں تمہارے بچوں کی تعلیمی دلچسپی اور قابلیت کی بنیاد پرکہہ رہا ہوں۔” ذاکر نے کہا ” سر گھر میں چار بیٹیاں ہیں۔ ایک چھوٹا لڑکا ہے۔ کمانے والا میں اکیلا ہوں۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہورہی ہیں۔ میرے بچوں کو دو وقت کی روٹی ، ان کے تن کو کپڑا بڑی مشکل و مشقت کے بعد میسر ہوتا ہے۔ اور نہ ہی میں انکی چھوٹی تمناؤں اور آرزوؤں کو پورا کر پا تا ہوں۔ میرے رشتے دار اور دوست و احباب بھی کہتے ہیں کہ ” کب تک بچوں کو پڑھاتے رہو گے؟ پڑھانے سے کیا نوکری ملے گی؟ تم کیوں اپنی زندگی مٹی کر رہے ہو؟ تعلیم کا غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔” سر نے بات کاٹ کر کہا اور تم نے ان کی بات مان لی۔
“دیکھو ذاکر بھائی!!! ۔۔۔۔۔۔ تمھارے بچے پڑھائی میں ہوشیار ہیں۔ جماعت میں اول نمبر آتے ہیں۔ انھیں کوئی غلط شوق بھی نہیں ہیں۔ انھیں پڑھنے دو۔ تمھیں انکی پڑھائی کا کچھ بھی خرچ نہیں دینا ہے۔ میں سب دیکھ لونگا۔ انکی پڑھائی میری ذمداری ہے۔ اللہ نے چاہا تو انکی زندگی کامیاب ہوگی۔ تمھیں اپنوں بچوں پر فخر ہوگا۔۔۔۔۔ انشاءاللہ اور سنو۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اچھے کاموں میں ساتھ نہیں دیتے اور منفی مشورے دیتے رہتے ہیں۔ انکی باتیں سن کر بھلا دیا کرو۔ تمھاری محنت و مشقت کا اجر تمھیں ضرور بہ ضرور ملےگا۔ تم ایک ایماندار حلال کمانے والے شخص ہو۔۔۔۔۔۔ تمھاری تڑپتی دعاؤں کو اللہ ضرور سنے گا۔ صبر سے کام لو۔ ذاکر نے خالد سر کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس چلے آئے۔
ذاکر سال میں ایک دو مرتبہ اسکول میں بچوں کا داخلہ لینے آتا رہتا تھا۔ شاید!! جب مفلسی و غربت کے حالات برداشت سے پرے ہوجاتے تو وہ مجبوراً بچوں کو اسکول سے نکال کر کام کاج یا محنت مزدوری کرنے کے لئے بھیجنا چاہتا تھا۔ حالانکہ اس کی دلی خواہش و تمنا یہی تھی کہ ان کے بچے اسکول پڑھے۔ تعلیم حاصل کرے۔ اچھے انسان بنے تاکہ وہ اپنی زندگی چھاؤ میں گزار سکے۔ اس کی طرح تنگدستی ، مفلسی یا محتاجی میں کی کڑی دھوپ میں نہیں۔۔۔ لیکن ایک بڑا پریوار اس ساٹھ سالہ شخص پر منحصر تھا۔ جو گاؤں میں بے یار و مددگار تھا۔ جس کے پاس نہ گھر تھا اور نہ کچھ اثاثہ موجود تھا۔ ڈاکٹر کِنگے انھیں بخوبی جانتے تھے۔ ذاکر ان کے دواخانے کے قریب وقتاً فوقتاً پھلوں کا ڈھیلا لگاتے تھے۔ ڈاکٹر کِنگے ایک سماجی خدماگار بھی تھے۔ وہ ذاکر کے معاشی حالات اور ایمانداری سے بخوبی واقف تھے۔ اس لئے ذاکرکے مانگنے پر وہ دو تین سو روپئے ہفتے کے دن ادھار دےدیا کرتے تھے۔ ذاکر ان روپیوں سے پھل فروٹ خرید کر پورا ہفتہ پھیری لگا کر بیچتا رہتا۔ روزآنہ صبح سے شام پھیری لگا تے اور شام ہونے پر گھر آکر حساب کرتے چند روپیوں میں گھر کے اخراجات پورے کرلیتے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو روپیے واپس دینے کے لئے جمع رکھتے ۔ وہ برابر وعدے کے مطابق ڈاکٹر کِنگے کے ادھار لئے روپیے لوٹا دیتے تھے۔ اگر کبھی روپیوں کا انتظام نہ ہوتا تو بھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرکے مجبوری بتاتے تھے۔ اس پر ڈاکٹر کِنگےانھیں مزید مہلت دے دیتا تھا۔ اس طرح مصیبت و پریشانیوں میں وہ اپنے پریوار کے دن گزاررہے تھے۔ لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہے تھے۔
شام کو عابد اور عارف نے والد سے کہا “ابوجان! آپ آج اسکول سے ہمارا نام نکالنے کے لئے آئے تھے نا۔۔۔ ابو جان! ہمیں اسکول جانا اچھا لگتا ہے۔ ہم خوب پڑھے گے۔ اچھے قابل انسان بنے گے۔ اور تمھارا نام روشن کرینگے۔ تمھیں آرام دینگے۔” دونوں بیٹوں نے اپنے والد سے کہا۔ ” شاباش!!۔۔۔ میرے بچوں۔۔۔۔۔۔ تم قابل نبو۔ اچھے اور نیک انسان بنو۔ بس یہی میری تمنا ہے۔ میں اسکول میں تمھارا نام نکال نے نہیں آیا تھا۔ بلکہ میں تو تمھارے استاد سے ملنے آیا تھا۔ ‘میرے بچےکیسے پڑھ رہے ہیں؟’ یہ دیکھنے آیا تھا۔ میرے بچوں! تم دل لگاکر پڑھوں۔۔۔۔۔۔۔ ذاکر نے دونوں بیٹوں کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔ اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے۔ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ خوشی کے یا بے بسی کے۔
عابد اور عارف دونوں جماعت ہفتم میں پڑھتے تھے۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ دونوں بھائی خوب دل لگا کر پڑھائی کرتے۔ وقت پر روزآنہ اسکول اور مدرسہ جاتے۔ بڑی لگن و محنت سے ہوم ورک کرتے۔ ساتھ ہی نماز و تلاوت بھی پابندی سے کیا کرتے تھے۔ کھیل کود میں ذیادہ وقت نہیں گزارتے۔ والد سے کسی چیزکی فرمائش نہیں کرتے۔ جو ملتا اسی پر اتفاق کرتے۔ یوں ہی دسویں سے بارہویں جماعت میں دونوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اچھے نمبرات کی وجہ سے دونوں بھائیوں کا سرکاری کالج میں ڈپلوما کورس میں داخلہ ہوگیا۔ دو سال بڑی محنت و مشقت سے مکمل کرنے کے بعد دونوں بھائیوں کو سرکاری ملازمت ان کے نمبرات کی وجہ سے مل گئی۔ وہ میریٹ میں آئے تھے۔ ہر سو ان کے چرچے ہوئے۔ لوگوں ششدر رہ گئے کہ ان غریب مفلس بچوں نے مثالی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ذاکر، اپنے بیٹوں کی کامیابی پر پھولے نہیں سمایا۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ کیوںکہ دنیا، جس تعلیم کو بے کار سمجھ کر انھیں طعنے دیتی تھی۔ آج وہ سب زبانیں سکونت اختیار کر گئی تھی۔ ایک غریب والد کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا تھا۔
جب کوئی ذاکرکی تعریف کرتے ہوئے کہتا کہ ” تمہاری محنت ، لگن اور تڑپ نے بچوں کو کامیابی عطا کی۔” تو وہ فوراً جواب دیتے کہ ” نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے جس نے میرے بچوں کے بلند “عزائم” کو کامیابی بخشی۔ اور انہیں صابر رکھا۔ “
حُسین قُریشی
بلڈانہ مہاراشٹر ( انڈیا )
DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of information contained.