شوپیان میں فورسز کی چھاپہ ماری کے دوران البدر کمانڈر 3ساتھیوں سمیت جاں بحق،ایک زندہ گرفتار

    0

    سرینگر:صریرخالد،ایس این بی
    محض چند روز کے وقفہ کے بعد فوج،پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے جنوبی کشمیر میں ایک چھاپہ مار کارروائی میں مزید چار جنگجوؤں کو مار گرایا ہے جن میں البدر کے ایک سرکردہ کمانڈر شامل بتائے جاتے ہیں۔فورسز نے مدت بعد ایک جنگجو کو زندہ گرفتار کر لینے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
    جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع کے کِلورہ گاؤں میں دوپہر کے قریب فوج ،جموں کشمیر پولس اور دیگر فورسز نے ایک وسیع علاقے کو محاصرے میں لیکر ایک خاص جگہ پر چھاپہ مارا تھا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ جگہ پر جنگجوؤں کی موجودگی سے متعلق اطلاع ملنے پر کی گئی اس کارروائی کے دوران جنگجوؤں نے گولی چلاکر جھڑپ چھیڑ دی جسکے دوران پہلے دو اور پھر مزید دو جنگجو مارے گئے۔کشمیر پولس کے چیف وجے کمار کے مطابق ان چاروں کا تعلق البدر جنگجو تنظیم سے تھا اور ان میں شکور پرے نامی جنگجو بھی شامل ہیں جنہیں البدر کا ضلع کمانڈر بتایا گیا ہے۔دوسرے جنگجو کی شناخت سہیل بٹ کے بطور ہوئی ہے جبکہ دیگر دو کی شناخت ہونا باقی بتایا جارہا ہے۔
    پولس کا دعویٰ ہے کہ جھڑپ کے دوران ایک جنگجو کو زندہ پکڑا گیا ہے حالانکہ دیر گئے تک انکی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی۔یہ مدت بعد ہے کہ جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ کے دوران کسی جنگجو کے زندہ پکڑ لئے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
    دریں اثنا سرینگر کے پائین شہر میں نوہٹہ کے مقام پر ،پولس کے مطابق،ایک نوجوان نے سی آر پی ایف کے ایک اہلکار سے بندوق چھیننے کی کوشش کی جسکے دوران وہ پکڑے گئے۔ سی آر پی ایف کے  ترجمان پنکج سنگھ نے بتایا کہ نوہٹہ میں پولس اور سی آر پی ایف کے اہلکار معمول کے مطابق ڈیوٹی پر تھے کہ جب ایک نوجوان نے ہیڈ کانسٹیبل سمریندر سے بندوق چھیننے کی کوشش کی۔پنکج سنگھ کے مطابق مذکورہ اہلکار نے مزاحمت کی اور شور مچاکر ساتھی اہلکاروں کی توجہ پائی اور انہوں نے حملہ آور کو پکڑ کر پولس کے حوالے کردیا۔ ایک پولس ترجمان نے اس بارے میں کہا کہ حملہ آور کی شناخت سرینگر کے پوش عمر آباد پیر باغ علاقہ،جہاں جموں کشمیر پولس کا ہیڈکوارٹر بھی واقع ہے، کے 28 سالہ تحسین شبیر کے بطور ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پولس تھانہ نوہٹہ میں انڈین پینل کوڈ کی دفعات نمبر  392 اور  511 کے تحت  ایف آئی آر نمبر 40/2020 درج کرکے تحقیقات شروع کی گئی ہے۔واضح رہے کہ دو ایک سال قبل سرکاری فورسز سے ہتھیار چھیننے کے واقعات پیش آنا شروع ہوکر کافی عام ہوگئے تھے تاہم نوجوانوں کے جنگجوؤں کی صفوں میں جانے کے واقعات میں کمی آنے کے ساتھ ساتھ ہتھیار چھیننے کی کوششوں میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS