سھارا تبصرہ : کتاب “زنداں”

0

کتاب : زنداں
ناول نگار : فردوس عظمت صدیقی
صفحات : 350 قیمت:400
ناشر : عرشیہ پبلی کیشنز، اے170-، گراؤنڈفلور3-، سوریہ اپارٹمنٹ،
دلشادکالونی، دہلی95-
ملنے کا پتہ : مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، اردوبازار، جامع مسجد، دہلی6-
تبصرہ نگار : محمد صبغۃ اللّٰہ ندوی
زیر نظر کتاب ’زنداں‘ ایک ایسا ناول ہے جسے گھر گھر کی کہانی کہیں تو غلط نہیں ہوگا لیکن اسے خصوصاً ناول کی شکل میں ہر کوئی تحریر نہیں کر سکتا۔ کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے۔ فردوس عظمت صدیقی نے اپنے ناول کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا، وہ جتنا خشک ہے، اس کے مناظر جتنے ڈراؤنے اور تجربات و احساسات جتنے تکلیف دہ اور مصائب و پریشانیوں سے پر ہیں، انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں سے اسے اتنا ہی دلچسپ بنا دیا۔ کتاب کا موضوع وبائی مرض کورونا سے پیدا حالات، بندشیں، لاک ڈاؤن، گائیڈلائنز، وحشت ناک مناظر اور اس وقت لوگوں کو درپیش مسائل ہیں جنہیں آج نہ کوئی یاد کرنا پسند کرے گااورنہ بیان کرنا لیکن ’زنداں‘ کی ترتیب، پلاٹ اور کردار، ابواب اور بیانیہ واسلوب کچھ اس طرح کے ہیں کہ کتاب پڑھنا شروع کرنے کے بعد جو تشنگی اور تجسّس کا ماحول بنتا ہے، اختتام تک پہنچے بغیر قاری کتاب کو چھوڑ ہی نہیں پاتا۔ بیچ بیچ میں گاؤں اور دیہاتوں میں عام بول چال یا مخصوص اوقات میں استعمال کیے جانے والے دادی اماں اور گھر کے بزرگوں کے مخصوص الفاظ جہاں منظرنگاری کو دلچسپ بنا رہے ہیں وہیں اسلام، مساجد، اسلامی تعلیمات اور مسلم معاشرے کے ماحول کا ذکر اپنی ایک الگ ہی چھاپ چھوڑ رہاہے جو قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اسے کتاب کو شروع سے اخیر تک پڑھنے کی تحریک و ترغیب دیتا ہے۔
ناول میں 9 ابواب ہیں جن کے نام ہیں: پوری دنیا ایک جرم، قید میں ہے بلبل، آثار قیامت ہے، میری خطا تو نہیں، خدا نگہبان ہے، یہ کیسی آواز، کوئی راہ نہ کوئی منزل، زندگی پھر خانہ بدوش، میرا چاند آیا نظر، یہ تمام ابواب اوران کے موضوعات ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا، کب ہم دوسرے موضوع میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے انداز بیان ایک الگ ہی نکھار پیدا کر رہا ہے۔ کردار تو بہت ہیں لیکن مرکزی کردارسعید واقعی مرکزی کردارہے۔ ناول کے پلاٹ کے ساتھ زندگی کبھی تیز اور کبھی رک رک کر جس طرح آگے بڑھتی ہے اور گھر و معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہوئے مصائب سے نکلنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے، اسے ناول کی شکل میں پیش کرنا فردوس عظمت صدیقی کی بہت بڑی کوشش ہی نہیں تخلیقی کارنامہ بھی ہے۔
ناول پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ جذبہ اور لگن ہوتو مشکل حالات میںبھی نہ صرف کامیابی مقدر بنتی ہے بلکہ ان میں لوگوں کے سیکھنے اور معاشرے کوسکھانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ کتاب کے مضامین طویل نہیں ہیں جس کی وجہ سے پڑھنے میں اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ ایک نشست میں آسانی سے ایک باب کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ بیانیہ اور منظرکشی انتہائی دلچسپ ہے جس کی وجہ سے کتاب کے خاتمے کے بعد ناول کی وہ حسرت رہتی ہے کہ کاش کچھ اور پڑھنے کو ملتا۔ دراصل ناول نگار نے حالات و واقعات اور الگ الگ کرداروں کے ذریعے لوگوں کے احساسات کو اس طرح خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ہرانسان کو واقعات کو تجربہ کے طورپر پیش کرنے کا سبق ملتا ہے۔ ناول مسلم متوسط طبقے خصوصاً راجدھانی دہلی کے جامعہ نگر کی زندگی کا آئینہ ہے۔کرداروں کے مکالموں میں ایسی برجستگی ہے کہ قاری مسحور ہو جاتا ہے۔ یقینا علمی و ادبی حلقوں میں ناول نگار کی فنی کوششوں کی پذیرائی ہوگی اور لوگوں کو اپنے تجربات اور واقعات کو نئے انداز میں پیش کرنے کا حوصلہ اورتحریک ملے گی۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS