سوڈان میں 15اپریل سے شروع ہونے والی خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ دوجنرلوں کے درمیان اقتدار کی بالادستی کی جنگ نے جہاں ایک طرف جمہوری نظام کے قیام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، وہیں اب تک 600سے زیادہ افراد کی موت ہوچکی ہے۔اس ملک میں چاردہائیوں سے جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔سعودی عرب اور امریکہ کی مصالحت کی کوششوںکے باوجود سوڈان میں جنگ بندی کا امکان مفقود ہے۔ راجدھانی خرطوم پر کنٹرول کے لیے جنرل عبدالفتح البرہان اور محمد حمدان حمیدیتی دفلوکی فوجوں کے درمیان زبردست جنگ ہورہی ہے۔ سوڈانی افواج کے ہیلی کاپٹر اور فوجی جہاز اپنی راجدھانی اور اپنے ہی لوگوں پربم برسارہے ہیں اور آر ایس ایف کی فوج کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کررہے ہیں۔ اس معرکہ میں سب سے زیادہ نقصان عام سوڈانی کا ہورہاہے۔ اپنے ہی فوجیوں کے ذریعہ 600سے زیادہ افراد کے قتل، لاکھوں کی املاک کی بربادی نے سماج کو بدترین بحران سے دوچار کردیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ صورت حال ایسے وقت میں پیداہوئی ہے جب مسلم دنیا بطور خاص عرب ملکوں میں پرانی کدورتوں کو ختم کرکے افہام وتفہیم کی دور کا آغاز ہوا ہے اور مغربی ایشیا میں عرب اور مسلم ملکوںمیں سفارتی تعلقات قائم ہوگئے ہیں جو 2011میں خانہ جنگی اور بغاوتوں کی وجہ سے ٹوٹ گئے تھے کیونکہ یہ ملک سعودی عرب سے بہت زیادہ دورنہیں۔ دونوں ملک بحراحمر کے دو کناروں پر قائم ہیں۔ سعودی عرب اور سوڈان کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ کئی امور میں زبردست تعاون کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب کااندیشہ ہے کہ یہ بحران خطہ میں بدامنی کو فروغ دے گا۔
سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمدبن سلمان کے وژن 2030 کی منصوبہ بندی میں اس ملک بہت بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔ مستقل کی منصوبی بندی کو لے کر محمد بن سلمان سوڈان کو کافی اہمیت دیتے ہیں، اس پورے خطے اورسوڈان کوفوڈ سیکورٹی کے معاملہ میں غذائی اجناس کی پیداوار کے مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کووڈ19-اور یوکرین جنگ کے بعد افریقہ کے کئی ممالک میں غذائی بحران پیدا ہوگیاتھا اور ان ملکوں کو اس دوران یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے عوام کی اس بنیادی ضرورت کو ہی پورا کرنے اور ان کو پیٹ بھرروٹی کھلانے سے بھی مجبور ہیںجبکہ پوری دنیا اس خطے کو خوش حال اور مالدار خطہ سمجھتی ہے۔اس غذائی بحران نے آنکھیں کھول دی ہیں۔بہرکیف، سوڈان دریائے نیل کی وادی کازرخیز ملک ہے اوراس کی خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام ختم ہوجاتاہے تو بحراحمر کے سوڈانی ساحل سیاحت کا اہم مرکز بھی بن سکتے ہیں۔ مگراچانک حالات کی تبدیلی نے سوڈان کو دوراہے پر پہنچا دیاہے۔حمیدیتی اور البرہان وجود کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایسے حالات میں نہیں لگتا کہ کسی خارجی طاقت کے دباؤ میں آکر جنگ بندی پر راضی ہوجائیں۔ سعودی عرب کے علاوہ امریکہ سوڈان کے امور میں کافی دلچسپی لیتارہاہے۔ جمہوریت کے قیام کے لیے وہ فوج پر بیرکوں میں جانے پر زور دیتا رہا ہے۔جنرل البرہان روس کو بحراحمر میں فوجی بیڑے لانے کے لیے راضی ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال امریکہ کو تشویش میں ڈالنے والے ایسے حالات میں سوڈان کے معاملے میںامریکہ کی دلچسپی غیرواجبی نہیں۔n
افلاس و فاقہ کشی میں قتل و غارت کا شرمناک سلسلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS