شاہنواز احمد صدیقی
مغربی ایشیا اور فلسطین کی آزادی کی جدو جہد پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے اس خطے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ایک اور انتقاضہ شروع ہو چکا ہے، پورے خطے میں دھماکہ خیز صورت حال ہے۔ دونوں طرف سے ہلاکتوں، حملوں اور مزاحمتی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں مغربی کنارے میں 170 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ یہ تعداد غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی فوج کی بربریت اور کارروائی میں 49 افراد کی ہلاکت کے علاوہ ہیں۔ مغربی کنارے اسرائیل کی حالیہ فوجی چھاپہ مار کارروائی میں صرف جنین میں 20 فلسطینیوں کی موت ہو چکی ہے، ایک واقع میں اتنی اموات ایک اور انتقاضہ کی طرف اشارہ ہے۔ 20 سال بعد انتقاضہ کا پھوٹ پڑنا، ایک طرف عالمی برادری کی فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں ناکامی، کے ساتھ امریکہ کی بھی ناکامی ہے، دو روز قبل اسرائیل نے ایک اور فلسطینی علاقے غزہ میں بھی اپنا محاذ کھولتے ہوئے وہاں بم باری کی ہے۔ داخلی محاذ پر اسرائیل فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کے لیے ایک قانون بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ دوسری طرف افریقہ کا ایک اور ملک چاڈ صیہونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا ہے، اس سے قبل سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر کے مراکش، یو اے ای، اردن، بحرین کی صف میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے، چند روز قبل چاڈ کے ڈکیٹر مہت ڈیبی Mahanat Deby نے اسرائیل کا دورہ کرکے سفارت خانے کا افتتاح کیا ہے، چاڈ نے 1972 میں افریقی یونین کے دبائو پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔اسرائیل افریقی ممالک کے اس قدم پر بغلیں بجا رہا ہے اور فلسطینیوں کو ٹھینگا دکھا رہاہے۔
ارض فلسطین میں 1848 سے جاری یہودی نسل پرستوں کی بربریت ہنوز جاری ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں اسرائیلی بربریت نے جو رنگ دکھائے ہیں اس کا بدترین روپ نومبر کے انتخابات کے دوران اور بعد میں نظر آیا ہے اسرائیل میں نسل پرست انتہاپسند سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے آزادانہ طریقے سے ایک مضبوط سرکار بنائی ہے۔ اس سرکار نے حلف سے قبل ہی اسرائیلیوں اور عالمی برادری کو باور کرادیا تھا کہ ان کی ترجیحات کیا ہوں گے۔ منجامن نتن یاہو کی قیادت والی منتخب سخت گیر لیڈران کی حکومت نے مغربی کنارے پر اپنے قبضہ کو ’قانونی جواز‘ فراہم کرنے کے لیے الحاق کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل پڑوسی عرب ممالک کی سرزمین پر قبضہ کرکے اس کو اپنی سرزمین کا حصہ بنانے کا اعلان کررہا ہے۔ اس سے قبل مشرقی یروشلم، گولان کی پہاڑیاں وادیٔ سینا تک پر وہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر کے اپنے ملک میں شامل کرتا رہا ہے اور اس طرح مقبوضہ علاقوں پر اقتدار اعلیٰ تھوپتا رہاہے، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ مغربی کنارے پر اگرچہ محدود کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کا ہی ہے مگر اقتدار اعلیٰ یہودی ریاست کا ہے۔ مگر اب اسرائیل اس خطے پر اپنا مکمل اقتدار مسلط کرکے اسے فلسطینی اتھارٹی کے اختیارات کو سلب کرنے کا اراد ہ رکھتا ہے۔
مغربی کنارے کے رملّہ میں فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے اور 1992-93 میں فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے بعد پی اے اتھارٹی کا صدر یاسر عرفات کو بنایا گیا تھا تو ان کو اس شہر میںہی مسند صدارت نصیب ہوئی تھی بعد ازاں کے سخت ترین حالات میں مغربی ایشیا اور فلسطینیوں کے عظیم لیڈر یاسر عرفات کو اس چھوٹے شہر میں اور محصور محدود کر دیا گیا بعد ازاں ان کی مشتبہ حالات میں موت واقع ہوگئی تھی۔ یاسر عرفات کو آخری لمحات میں رملّہ سے پیرس کے اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جہاں چند روز ہیںہی ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔ بہر کیف امریکی وزیر خارجہ جو اب تک یوکرین میں روسی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی جارحیت سے نمٹنے میں مصروف تھے، تشدد اور اسرائیلی (مقبوضہ فلسطین) میں بربریت آمیز وارداتوں کے بعد مغربی ایشیا میں شب و روز گزار کر گئے ہیں ان کی کوشش اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ وارداتوں کے سلسلہ کو اور کشیدگی کو ختم کرنے کی کوششیں کررہے، امریکی وزیر خارجہ نے دونوں فریقوں کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرکے موقف میں نرمی اختیار کرنے کی درخواست کی ہے۔ ارض فلسطین میں یہ صورت حال اس قدر دھماکہ خیز ہے کہ کئی حلقوں نے ایک اورپرتشدد جدوجہد آزادی کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل عربوں کو شاخ زیتون پیش کررہا ہے اور ابراہیمی سمجھوتے کے تحت تمام عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اپنے آپ کو ایک روشن خیال اور جدید ریاست کے طور پر قبول کرانے کی کوشش میں ہے۔ n